روزنامہ نوائے وقت ۔ جسٹس (ر) نذیر احمد غازی
قوم کب قوم بنے گی؟ اور ہم ہیں کہ قوم کو قومیتوں میں بدلنے کا کوئی جتن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مادی دنیا میں قوم پیشوں سے بھی بنتی ہیں۔ ہمارے ہاں کے اشرافیہ کے معتبر پیشے سیاست‘ تجارت‘ قیادت اور نہ جانے کتنے معصوم اور خفیہ قسم کے ہیں اگر حساس دلوں کو ان خفیہ اقسام کی خبر ہوتی ہے لیکن شعور کو دھوکہ دینے والے قلم فروش ہماری سوچوں کو اتنا باپردہ کر دیتے ہیں کہ اعتراض کرنیوالے کو بے عقلی کا طعنہ سہنا پڑتا ہے۔ یاد آیا کہ ہمارے قومی عناصر ترکیب میں دیانت اور اخلاص کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسی سبب سے برصغیر کی اسلامی قومیت کو ترویج دینے کیلئے پاکستان کی ریاست وجود میں آئی تھی۔
ع… مرا وطن بھی تو آسیب زدہ ہے لوگو
یہ بھوت‘ پریاں‘ پچھل پیریاں اور ہیبت ناک دیو مختلف اوقات میں ہماری پاکستانی اسلامی قومیت کے مقدس نحیف جسم کو اپنے شیطانی قبضہ میں جکڑتے ہیں کہ مایوسی اور بے یقینی کا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ چند دنوں پہلے قومی اخبارات میں ایک دیرینہ کہانی کا نیا عنوان سامنے آیا جس میں وہی پرانی دل آزار اور حسرت بھری باتیں تھیں کہ جن کو پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا اور یہ کہانی پلاٹوں کی بے جا فیاضانہ تقسیم تھی۔
ہمارے ہاں کے ارباب بست و کشاد اپنی بے زمام راجگری کے منہ زور گھوڑے رواں دواں رکھنے کیلئے ایسا نیم خوبصورت اہتمامِ سخاوت فرماتے ہیں کہ شرفاء کو بھی اپنی دیانت کا گواہ بنانے کیلئے بالجبر شامل کر لیتے ہیں۔
پلاٹوں کی اس تقسیم مسلسل میں کچھ معتبر نام نظر آتے ہیں جو ہر دو سال بعد خیرِ سرکار سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ رہنے کیلئے انکے پاس اپنے گاؤں سے لے کر بڑے شہروں تک میں پرکیف مقامات پر پُرآسائش رہائش گاہیں میسر ہیں لیکن ہوس کے دیونے انکے قلب و دماغ پر ایسی واردات کی ہے کہ وہ بیچارے مجبور ہیں وہ قومی خدمت کے علمبردار ہونے کے ہر وقت دعوے کرتے ہیں لیکن قوم کی غربت کو مزید مستحکم کرنے کے عملی فریضہ بھی ہر وقت سرانجام دیتے ہیں۔
فہرست میں ہر شعبہ اقتدار کے نام شائع ہوتے ہیں مجھے عدلیہ کے حوالے سے ایک سادہ اور محنتی کردار یاد آیا جسے ہم جسٹس عبدالمجید ٹوانہ کے نام سے جانتے ہیں۔ انہیں قانونی تقاضوں کیمطابق LDA نے پلاٹ کی پیشکش کی تو محترم ٹوانہ صاحب نے یہ قانونی اور جائز پلاٹ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ قانون اپنی جگہ درست ہے لیکن منصب قضا عام اور عوامی قانون سے بھی بلند تر ہے کیونکہ اس منصب نے قانون کا تحفظ ہی نہیں ناموسِ قانون پر پہرہ دینا ہوتا ہے اس لئے پلاٹ کا سرکاری تحفہ منصبِ قضا کیلئے ضعف کا سبب بنتا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمارے حلقہ ہائے اقتدار میں ایسے خوش نیت اور روشن عمل نام سامنے آتے ہیں جن کا انداز زیست ہماری جہد حیات کو توانا رکھتا ہے۔ جنرل محمد حسین انصاری مرحوم لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بلا شرکت غیرے آزاد عمل صدر نشین رہے مگر اپنے اعزاء کیلئے دو گز تک زمین بھی بے قیمت یا قیمتاً مختص نہیں کی۔ اپنے لئے دس مرلے کا ایک مناسب سا مکان ایک پرائیویٹ کالونی میں ہی بنایا تھا۔
یہ ابھی کم ہی وقت گزرا ہے جب جسٹس کارنیلئس نے اس جہان فنا کو چھوڑا تو وہ اس وقت لاہور کے ایک مقامی ہوٹل کے دو کمروں میں کرایہ دار تھے حالانکہ وہ پاکستان کے چیف جسٹس رہ چکے تھے اور ہر لحاظ سے معتبر حلقوں میں معزز جانے جاتے تھے یہ توفیق ایسی ہے کہ نیت پاک رہے اور کردار بھی صاف رہے مقام شکر ہے کہ ہمارے موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب کا کردار بھی مراعاتی زندگی سے بے نیاز ہے انکا نام کسی ایسی فہرست میں نظر نہیں آتا جہاں انگشت نمائی کی جا سکے۔ شاید اسی لئے انہیں غرباء مفلوک الحال لوگوں کی دعاؤں کا ہجوم مائل بہ بلندی کئے ہوئے ہے۔
عوام کے نجی امور سے لے کر قومی سلامتی کے معاملات میں ان کی وسیع نظر بینی نے قوم کو زندگی میں رمق کا احساس دلایا ہے اور اب عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی ذاتی پسند ناپسند سے بالا ہو کر اپنے جیسے دردمند مسیحاؤں کا حلقہ وسیع کرینگے تا کہ ہر شعبہ حیات میں وسیع نظر بینی سے عدل کا حصول اتنا ممکن ہو کہ ہر درد والا شہری زنجیر عدل تک رسائی رکھ سکے۔
دراصل ہماری قومی بے حسی کا ذمہ دار وہ خوشحال اشرافیہ ہے جس نے قومی دولت کو لوٹنے کے علاوہ غریب عوام کی ہڈیوں تک سے رس نچوڑنے کیلئے بہبودی تجارت سے جو سبق اخذ کیا ہے اور اسکی عملی صورت ہمارے ملک کی بیرونی اور اندرونی تجارت میں رائج کر دی یہ ایک علیحدہ معاشی مسئلہ ہے اقتدار کے اندر اور اقتدار سے باہر رہتے ہوئے نوکر شاہی سے جو تعلقات استوار کئے جاتے ہیں اس سبب سے معاشی آسودگی کے چشمے انکے گھر کے باہر دروازے کے نزدیک ہی برآمد ہوتے ہیں۔ وہ بیچارے معزز سفید پوش (سیاہ دل) دراصل بزعم خویش ’’حقیقی مستحقین‘‘ ہوتے ہیں کیونکہ براہ راست نہ سہی وہ دو پشتوں بعد تو یتیم ہوتے ہی ہیں‘ اس لئے کسی قسم کے کوٹے کی تقسیم یا پھر پرمٹ کی عطا اور سرکاری فوائد کی کسی بھی نوعیت کی کرم نوازی ان کی ذات کا تمغہ ہوتا ہے۔ ان کا نسلی حق ہوتا ہے اور قابل ہضم شیر مادر ہوتا ہے۔ اپنی سیاست کو خدمت اور اندازِ سیاست کو قومی فکر قرار دیکر زر پرستی ار زرگری کا جو بھونڈا انداز اختیار کیا جاتا ہے اس پر مجلس ابلیس بھی داد کے ڈونگرے برساتی ہے۔
داد دینے والے اور فریاد کرنیوالے ابن الوقت بھی ہیں اور ابن زر بھی جبکہ قوموں کے رہنما تو ابوالوقت اور ابوذر ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے بڑے احساس کی‘ گہرے جذبات کی اور سادہ قومی شعور کی بیداری کی ورنہ آئے دن بچہ فرنگی ہالبروک جیسے ہماری غربت کا مذاق ہر جگہ اور ہر وقت اڑاتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کریگا۔ ہوس اور بالکل غیر انسانی ہوس نے ہمارے معاشرے کے رہبروں کو اتنا زیادہ بے بصارت بنا دیا ہے کہ انہیں ہر زمینی خلائی وہم نظر آتا ہے اس لئے اخلاقیات اور سماجیات جیسے الفاظ ان کے نزدیک بچوں کی جملہ سازی کیلئے ہوتے ہیں۔ پلاٹ‘ پلاٹ‘ پرمٹ‘ پرمٹ اور ناجائز مراعات کا حصول ان کے نزدیک آسودہ زندگی کا نقشہ ہے۔
بھیک مانگنے کا ہر کامیاب حربہ استعمال کرتے ہیں اور اپنے خزانوں کو اندر باہر سے بھرتے ہیں۔ قومی خزانہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہی ہوتا ہے۔ گویا انعام لینے کیلئے صرف اور صرف ہم اور سزا پانے کیلئے ہم سب کا فارمولہ استعمال کرتے ہیں۔
اگر ہالبروک نے انہیں بھیک مانگنے کا طعنہ دیا ہے تو یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے مخاطب نہیں ہیں بلکہ یہ تو غریب اور حسرتوں کی ماری قوم کو برا بھلا کہہ رہا ہے اسی لئے میرؔ نے کہا تھا کہ …؎
امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے
یہ اشرافیہ کبھی یوں کیوں نہیں سوچتے کہ ہم اپنی ضرورت تک محدود رہیں اور بقیہ اشیاء قومی خزانے کو واپس لوٹا دیں حکومت کے کار پرداز اپنی برائی میں اہل لوگوں کو شریک کر کے ان کو نااہل بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور بلند مناصب کو بھی پلاٹ کی مار مارتے ہیں اور ان اشرافیہ کے کچھ معززین ایسے ہیں جو عوام کا مقدمہ لڑتے لڑتے اپنی حرص بھری تمناؤں کا مقدمہ شروع کر دیتے ہیں اور قومی بینکوں کا ڈاکہ شدہ سرمایہ ان کی حلال فیس بن جاتی ہے اور ان کا اعزاز برقرار رہتا ہے۔ ہر شخص حسبِ توفیق زبان و قلم سے اصلاح قوم کی تجاویز دے رہا ہے لیکن قوم کی قومی حیثیت کے بارے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ قوم کی شناخت پیدا کرنے کیلئے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ قوم کے وجود کیلئے فرد کا خوش نصیب ہونا بنیادی شرط ہے اور خوش نیتی ہی قطرے کو دریا میں فنا ہونے پر آمادہ کرتی ہے پھر خود فراموشی‘ ایثار اور جذبہ قربانی پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کیلئے حرص و ہوس سے باز رہنا ہی وجود کی شفافیت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
انسانیت کے سب سے بڑے محسن حضرت سیدنا محمد مصطفیﷺ نے نہایت حقیقت افروز نشاندہی فرمائی تھی کہ ’’انسان مال کی محبت میں بڑھتے بڑھتے دو وادیوں کی خواہش کرتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اس کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی ہی بھرے گی‘‘۔ قبر تک پہنچنے کا انتظار کیوں کریں آیئے ابھی سے نامرادی کی منزل کی تمنا سے اپنی نیتوں کو پاک کریں اور قناعت و ایثار کو پیشہ حیات بنا کر قوم کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔
قناعت سے قوموں کی زندگی بڑھتی ہے
ہوسناکی سے فرد ہی نہیں قومیں بھی گمراہ ہو جاتی ہیں
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
إرسال تعليق
Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.