اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ نے انتظامی حکم کی واپسی کے ذریعے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ہٹانے پر ازخودنوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر ججوں کی بحالی کے انتظامی حکم واپس لیا گیا تو یہ غداری ہوگی۔ صدر سمیت آئینی اداروں کے سربراہ ایگزیکٹو آرڈر کو واپس نہیں لے سکتے۔ ایگزیکٹو آرڈر اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکا ہے اور اگر اس کو واپس لینے جیسا کوئی اقدام کیا گیا تو یہ آرٹیکل 6 کے تحت آئین کی پامالی کے مترادف ہو گا۔ عدلیہ ریاست کا ایک اہم ستون ہے جس کو دھمکایا نہیں جا سکتا جس طرح کے حکومت حربے استعمال کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیس کے فیصلے پر طے ہو چکا ہے۔ اس لئے حکومت کا صدر اور وزیراعظم سمیت کوئی بھی
daily jang >>>>>>
آئینی عہدیدار اس آرڈر کو واپس نہیں لے سکتا۔ اس لئے انتظامی و ریاستی اداروں کے سربراہ اس انتظامی حکم نامہ واپس لینے سے باز رہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدلیہ کو گالیاں دی جارہی ہیں،وزیر اعظم کو تحریری بیان جمع کرانا ہوگا،جبکہ خبر کے ماخذ کے حوالے سے بحث کے دوران جسٹس رمدے کا کہنا تھا کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہو۔عدالت نے کہا کہ کچھ لوگوں کے بیانات کی وجہ سے ملک میں غیریقینی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے۔ عدالت فیصلے دیتی ہے توانہیں اہمیت دی جائے۔ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کے لئے اس طرح کے بیانات سامنے لائے جاتے ہیں کہ ججز بحالی کا انتظامی حکم نامہ واپس لیا جائے گا۔ عدلیہ کی بحالی کے انتظامی حکم نامے کے حوالے سے ایک آئینی عہدیدار نے پارلیمنٹ میں بھی بیان دیا۔ ایک مرتبہ پھر تمام پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے یہ خبر جاری کی۔ وزیراعظم نے اس خبر کی تردید کی۔ پرائیویٹ چینلز پر یہ بیان سامنے لایا گیا کہ ملک کے ایک بڑے وکیل اور وزیر قانون کی مشاورت سے انتظامی حکم نامہ واپس لیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے بیانات صرف پہلی مرتبہ منظر عام پر نہیں آئے لیکن 13 اکتوبر سے پہلے اور بعد میں جب تک این آر او نظرثانی اپیل کی سماعت عدالت میں شروع ہوئی اس وقت سے اس طرح کے بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ملک کے تمام آئینی ادارے سپریم کورٹ کے 2 جولائی کے فیصلے پر عمل کے پابند ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق کو ججز بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے 31 جولائی کے فیصلے کا متعلقہ پیرا گراف پیش کیا گیا اور ان سے استفسار کیا گیا کہ وہ کون سی اتھارٹی ہے جو کہ عدلیہ بحالی کا حکم نامہ واپس لے سکتی ہے لیکن وہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ عدالت نے کہا کہ عدالت نے اٹارنی جنرل سے بار بار پوچھا کہ آپ ملک کے چیف لاء آفیسر ہیں۔ اس بیان سے متعلق کیا پوزیشن ہے۔ آپ کو وزیراعظم کا تحریری بیان جمع کرانا ہو گا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ساڑھے گیارہ بجے حکم دیتے ہوئے کچھ دیر کی مہلت دی تھی۔ اٹارنی جنرل اس دوران رجسٹرار آفس سے رابطے میں رہے اور پیغام دیتے رہے کہ ساڑھے 12 بجے بیان جمع کرا دینگے۔ عدالت نے 12:45 پر سماعت شروع کی۔ جب اٹارنی جنرل سے بیان کے حوالے سے پوچھا تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے اور کہا کہ ان کی وزیراعظم کی پرنسپل سیکرٹری سے بات ہوئی ہے۔ وزیراعظم کسی میٹنگ میں ہیں اس لئے ہفتہ 16 اکتوبر تک وقت دیا جائے۔ عدالت نے اس موقع پرقرار دیا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے یہ اشارہ ملا ہے کہ وہ عدالت میں بیان جمع کرانے کی بجائے مزید وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کی آئینی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر صورت میں آئین کا دفاع کرینگے۔ عدلیہ ریاست کا ایک اہم ستون ہے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ عدلیہ کو دھمکایا جائے۔عدالت نے یاد دلایا کہ اس سے قبل 2007ء میں بھی جس عدالت میں جسٹس وجیہہ بنام چیف الیکشن کمشنر ایک اہم کیس زیرسماعت تھا تو بیرسٹر اعتزاز احسن نے عدالت میں درخواست دی تھی کہ کسی ماورائے آئین اقدام کی کوشش کی جا رہی ہے اور جس پر اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے کہا کہ ایسی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی جس کو ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا لیکن اعتزاز احسن کے خدشات درست ثابت ہوئے اور 3 نومبر 2007ء کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کے ججوں کو ہٹانے کے حوالے سے ماورائے آئین اقدام سے باز رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں اور 3 نومبر سے متعلق ایمرجنسی سمیت سابق صدر جنرل مشرف کے جو اقدامات تھے ان کو سپریم کورٹ نے 14 رکنی بنچ کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے یہ بیان دیا کہ سابق صدر و آرمی چیف کے 3 نومبر 2007ء کے اقدامات کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے تحت وجود میں آنے والی پارلیمنٹ نے بھی جنرل مشرف کے اقدامات کی توثیق نہیں کی جبکہ 31 جولائی کے فیصلے میں 3 نومبر کی ایمرجنسی سمیت دیگر اقدامات اور عدلیہ کو غیرفعال کرنے سے متعلق تمام اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا گیا لیکن سپریم کورٹ کے 31 جولائی کے فیصلے کے بعد کسی کے ذہن میں یہ نہیں آنا چاہئے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو کسی ایمرجنسی یا آرڈر کے تحت ہٹایا جا سکتا ہے۔ جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر کی بطور چیف جسٹس تقریر کو بھی غیرآئینی قرار دیا گیا۔ عدالت یہ بھی طے کر چکی ہے کہ جیسے 3 نومبر سے لے کر 16 مارچ 2009ء تک اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو غیرفعال ہی نہیں کیا گیا۔ عدلیہ ریاست کا اہم ستون ہے۔ جسٹس راجہ فیاض احمد نے وزیر اعظم کی عدم دستیابی کے حوالے سے اٹارنی جنرل کے جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج اس سے اہم اور کون سی میٹنگ ہے کہ وزیراعظم جواب نہیں دے سکے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پوری قوم اضطراب میں ہے۔ آپ صرف پرنسپل سیکرٹری سے بات کر کے واپس آ گئے ہیں۔ جسٹس سائر علی نے کہا کہ وہ اہم میٹنگ کہیں ججوں کے بارے میں تو نہیں ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے اٹارنی جنرل نے کہا کہ اب 36 سال تک عدالت سے وابستہ رہے آپ کو وزیراعظم مل کر بتانا چاہئے تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو پیغام مل گیا ہے یہ پرنسپل سیکرٹری نے کنفرم کر دیا ہے اور کچھ مزید مہلت دے دی جائے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ کیا آپ ان کی ذمہ داری لیتے ہیں کہ وہ آئین کے مطابق چلیں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو چاہئے کہ آئین کا دفاع کریں۔ ملک میں آئینی حکومت ہے۔ ایک بیان جمع کرانا تھا کہ ملک میں کوئی کام آئین کے خلاف نہیں ہو گا۔ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے کہا کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہو۔ رات کو ساری قوم جاگتی رہی اور یہ کہا گیا کہ ہم نے بے چینی پیدا کی۔ صبح سے 17 جج بیٹھے ہیں۔ ساری قوم انتظار میں ہے اور کوئی جواب نہیں دیا گیا جسٹس ثاقب نثار نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے بتایا جائے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو آرٹیکل 209 کے علاوہ بھی ہٹایا جا سکتا ہے یا ایسی کوئی اور بھی شق ہے جس سے پوری سپریم کورٹ کو ختم کر دیا جائے۔ ایسا کوئی آرڈر 31 جولائی کے فیصلے کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا اور یہ اقدام آرٹیکل 6 کے زمرے میں آئے گا اور آپ کو وزیراعظم کو بتانا چاہئے تھا کہ ایسے کسی اقدام کی یہ قانونی پوزیشن ہو گی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ریکارڈ پر لائیں کہ کیا کوئی ایسی حرکت ہونے والی ہے کیا 31 جولائی کے فیصلے کے بعد ججز بحالی کا نوٹیفکیشن واپس لینا ممکن ہے۔ حکومت اس کی وضاحت کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بات کی انکوائری ہونی چاہئے کہ خبر کیسے چلی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حکومت ہیں آپ انکوائری کرائیں۔ جب بھی کوئی اہم کیس ہوتا ہے اس طرح کی افواہیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ مجھ کو 2 نومبر 2007ء کو چیف جسٹس بننے کی آفر کی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حکومت کی جانب سے آفر نہیں ہو گی۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ آپ اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ ایسی آفر کر سکیں۔ ہم نے ہر کیس میں حکومت کو مکمل وقت دیا ہے۔ ہم بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے کہ حکمران ہیں۔ حکومت نے بیک وقت 12 محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ 13 واں بھی کھول لیا جائے۔ اربوں روپے کی کرپشن کے معاملے پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تہیہ کیا ہے کہ ملک آئین و قانون کے مطابق چلا گیا رات کو ساڑھے دس بجے خبر آئی لیکن ساڑھے دس بجے تک اس کی تردید نہیں کی گئی۔ میڈیا کسی کا دشمن نہیں‘ آپ کے گھر سے یہ خبر نکلی۔ آپ عدلیہ کے ساتھ غیرضروری طور پرتصادم کیوں چاہتے ہیں۔ عدالت کو ننگی گالیاں دی جا رہی ہیں ہم تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ارباب اختیار کو کہیں کہ عقل کا مظاہرہ کریں۔ چیف جسٹس نے وقت دیتے ہوئے کہا کہ ساڑھے 11بجے تک اعلیٰ آئینی عہدیدار تحریری جواب داخل کر لیں۔ اس پر سیکرٹری قانون کے دستخط نہیں چلیں گے۔ بیان میں یہ بھی وضاحت ہو کہ آئین و قانون کے مطابق ایسا ہو سکتا ہے قانون کی حکمرانی کی بات پر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ کیا ہم یہاں نوٹیفکیشن کے ذریعے بیٹھے ہیں یا آئین کے تحت ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ تاہم وقفے کے بعد اٹارنی جنرل نے مزید مہلت کی درخواست کر دی۔
إرسال تعليق
Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.