نیب کے بعد ایف آئی اے بھی کرپٹ حکمرانوں کو بچانے میں مصروف

روزنامہ جنگ کراچی ۔ اسلام آباد (انصارعباسی)ایک جانب دوستانہ نیب حکومتی اشرافیہ کے ماضی کے کرپشن کے کیسز کلیئر کرنے میںرو مصروف ہے تو دوسری جانب ایف آئی اے کی نرم تحقیقات موجودہ حکومت کے کرپشن کے اسکینڈلز کو چھپانے میں مدد کر رہی ہے۔وفاقی حکومت کے انسداد بدعنوانی کے دونوں ادارے کی اعلیٰ عدلیہ کی جانب کئی بار سرزنش کی گئی لیکن نہ تو نیب موثر طریقے سے ماضی کے کرپشن کے این آر او متعلقہ کیسز آگے بڑھا رہا ہے اور نہ ہی ایف آئی اے کی جانب سے پی پی پی حکومت کے موجودہ دور کے کرپشن کے کیسوں کی تحقیقات پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔پاکستان اسٹیل ملز کی میگا کرپشن اسکینڈل سے لیکر نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ(این آئی سی ایل)کی گئی لوٹ مار، حج آپریشن 2010ء میں اربوں کا فراڈ یا پھر ممنوعہ ہتھیاروں کے 30ہزار لائسنسوں کا اجراء، ایف آئی اے کی جانب سے ہر کیس کو انتہائی دوستانہ انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے اوریہی عمل اعلیٰ عدلیہ کیلئے عدم اطمینان کا باعث ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے دونوں اداروں کے سربراہان کو ایوان صدر کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور وہ موجود ہ سیاسی قیادت سے قریبی تعلقات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ نیب براہ راست وزارت قانون کی زیر نگرانی کام کررہا ہے اور ایف آئی ا ے براہ راست وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔دونوں وزراء ایوان صدر کے قریبی خیال کئے جاتے ہیں اور عام طور پر صدارتی کیمپ کے اہم ارکان جانے جاتے ہیں۔ایف آئی اے جسے سپریم کورٹ نے اسٹیل ملزکے اربوں روپوں کے کرپشن کے کیس کی تحقیقات کا حکم دیا تھاابتدائی طور پر ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کی سربراہی میں درست طریقے سے تحقیقات کر رہاتھا۔بہرحال تحقیقات میں ایمانداری دکھانے والے افسر کو برطرف کر دیا گیاایک کے بعد ایک کو تبدیل کیا جاتا رہا۔موجودہ حکومت جانب سے تعینات کردہ پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ پر صدر زرداری کے قریبی ساتھی کے عباس اسٹیل گروپ کی کمپنیوں کو بڑی تعداد میں بلٹس ،اسٹیل بلٹس بشمول مختلف مصنوعات مارکیٹ کی مناسبت انتہائی سستے داموں فروخت کا الزام ہے۔نتیجتاً الزام لگایا گیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو تقریباً 40ارب روپے کا نقصان ہوا۔ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کے عہدیداران نے بذات خود لال جی کی کمپنیوں کو ’آفر لیٹرز‘ دیئے اور کوئی ایسا دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے کہ لال جی نے خود اسٹیل کی مصنوعات کی خود وصولی کی ہو۔لال جی کی کمپنیوں نے خوب منافع کمایا اور ملک کی اسٹیل انڈسٹری میں اپنی اجارہ داری قائم کی۔بہر حال سپریم کورٹ نے جب واضح کردیا کہ اسٹیل کی مصنوعات کی فراہمی میں گھپلے کئے گئے اور ثابت ہو گیا کہ اس کا فائدہ صرف عباس اسٹیل گروپ کی کمپنیز کو ہوا ہے اور حکم دیا کہ ایف آئی اے کو گروپ کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے ، اس موقع پر ایف آئی اے سارے معاملے میں ایسا چکر چلایا اور کہاکہ کاغذات کے مطابق ریاض لال جی عباس گروپ کی کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں اور دستاویزات کی رو سے ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں ہوسکتی ، حالانکہ ریاض لال جی کئی دہائیوں سے پاکستان میں عباس اسٹیل گروپ کے مالک کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ایف آئی اے نے مزید کہا کہ ریاض لال جی کی بیٹی سکینہ لال جی قانونی طور پر عباس اسٹیل کی کمپنیوں کی قانونی ڈائریکٹرہیں لیکن وہ ملک سے باہر ہیں لہذا ان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔سپریم کورٹ کبھی بھی اس تحقیقات سے مطمئن نہیں رہی لیکن ایف آئی اے کی جانب سے کوئی بہتری نہیں ہوئی۔بالکل اسی طرح کی تحقیقات حالیہ حج گھپلوں میں ایف آئی اے کی جانب سے کی جا رہی ہیں جس سے سابق وزیر مذہبی امور کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انہیں اس معاملے سے کلیئر کر دیا گیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ منگل کو حکومت کو فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے )کے ڈائریکٹر جنرل کو مبینہ حج گھپلوں سے تحقیقات سے ہٹانے کا حکم دیا اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے میں حکومت کی پیش رفت سے آگاہ کرینگے۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کے عدالت کو بتائے گئے اس پیغام کے بعد حکم دیا کہ جس میں انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ انہیں حج گھپلوں کی تحقیقات سے علیحدہ کردیا جائے کیونکہ ان کے پاس پوچھ گچھ کیلئے پانچوں سیکریٹریوں کو بلانے کا اختیار نہیں ۔کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اگر وسیم احمد انوسٹی گیشن ٹیم میں موجود رہے اور کیس خراب ہو گیا تو کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔این آئی سی ایل گھپلے میں ایف آئی اے کی تحقیقات کے حوالے سے شدید خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جس نے این آئی سی ایل کے چیئرمین ایاز نیازی کو 5میں سے 2کرپشن کیسوں میں کلیئرکردیا ہے جس میں ایک1.7ارب روپے مالیت کی دبئی میں جائیداد خریدنے کا بھی ایک کیس شامل ہے۔ورائچ فیملی سے 803کنال اراضی زیادہ نرخوں (1.68ارب روپے)میں خریدنے کے معاملے میں ایف آئی اے سارا پیسہ وصول کرلیا۔ جبکہ لبرٹی ٹاور دبئی میں27ہزار 4سو29اسکوائر فٹ آفس کیلئے جگہ 27سو یو اے ای فی اسکوائر فٹ پر خریدی گئی ، ایف آئی اے نے ملزم کو اس کیس میں کلیئر کردیااور کہاکہ آفس کیلئے جگہ مارکیٹ پرائس کے مطابق ہی خریدی گئی ہے۔ایجنسی کی جانب سے اسلام آباد اور کراچی کے آفسز کیلئے آفس فرنیچر اور مرمت کیلئے 3 کروڑ 60لاکھ روپے خرچ کرنے والے تمام ملزما ن کو کلیئر کر دیا۔جبکہ این آئی سی ایل کی جانب سے کورنگی کراچی میں10ایکٹر اراضی اور لاہور ایئرپورٹ کی زمین پر 20کنال اور 2مرلہ کی خریداری کے کیسوں پرایجنسی کی جانب سے تحقیقات کی جا رہی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ممنوعہ اسلحے کے 30ہزار لائسنسوں کے اجراء کے معاملے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک سابق جوائنٹ سیکریٹری پر مبینہ طور پر اس گھپلے میں ملوث ہونے کا الزام ہے انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد توسیع دے دی گئی ہے اوربی ایس 21کی پوزیشن کی پیشکش کی گئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیاکہممنوعہ ہتھیاروں کے تقریباً30ہزار لائسنسوں میں سے 5500وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کئے گئے جوکہ جعلی ہیں۔یہ جعلی لائسنس جعلی بینک چالان اور رسیدوں پر جاری کئے گئے۔اس وقت کے سیکریٹری داخلہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو آگاہ کیا کہ بینک چالان پر صرف 161 اسلحہ لائسنس جعلی کے اجراء پر تقریباً 75لاکھ روپے بنائے گئے۔


أحدث أقدم