اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں تقریبا پانچ لاکھ افراد ہیروئن کے نشے کے عادی ہیں جن میں سے بہت سارے ایسے افراد کراچی میں رہتے ہیں۔ ان افراد کے علاج اور مدد کے لیے خاص انتظامات نہیں ہیں۔ ان افراد کو کمرے میں بند کردینا ان کا علاج سمجھا جاتا ہے۔
کراچی کی زینب مارکیٹ سے باہر گلیوں میں مختلف طرح کے لوگوں سے آپ کی ملاقات ہو سکتی ہے۔ ہر ایک پاس ایک کہانی ہے بیان کرنے کے لیے۔ ان میں تاجر، صارفین، طلباء اور ہیرؤن کے عادی سب شامل ہیں۔
اسی جگہ پر ہی میری ملاقات چھبیس سالہ حسین سے ہوئی۔ اس کو دیکھ کر آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ نشے کا عادی ہے۔ اس کا رنگ کالا ہے اور جلد پر نشانات ہیں۔ حسین ایک لمبے وقت سے نشے کا عادی ہے۔
اس کے چہرے پر مایوسی ہے۔ ایسی مایوسی جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا نے اس کے خلاف کوئی سازش کر دی ہے۔ حسین فی الوقت بے حد مایوسی کا شکار ہے۔
ان کا کہنا ہے ' میں واپس وہی انسان بننا چاہتا ہوں جو میں تھا۔ میں دوبارہ خوش ہونا چاہتا ہوں۔
وہ روتے ہوئے کہتے ہیں ' میں کیا کروں۔ میں مرنا چاہتا ہوں'۔
جب چند ہفتے پہلے میں حسین سے ملا تھا تو وہ زیادہ پرامید تھا۔ وہ اور اس کا بھائی یوسف ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے چلائے جانے والے ' ری ہیب سینٹر' میں زیر علاج تھے۔
حسین کا کہنا ہے کہ ان کی نشے کے عادت نے سب کچھ برباد کردیا۔ اپنی زندگی کو دوبارہ صحیح راہ پر لانے کے لیے انہوں نے اپنی ہمت کو مجتمع کیا اور وہ اور ان کے بھائی علاج کے لیے ری ہیب سینٹر گئے۔
حسین کا کہنا ہے ' میرا ایک بیٹا ہے۔ وہ مجھ سے ناراض ہوتا ہے اور مجھے ڈرگی یا نشیڑی بلاتا ہے۔ مجھے اس کے لیے نشے کی عادت چھوڑنی ہے'۔
یوسف حسین کی پرچھائی کی طرح اس کے ساتھ رہتا ہے۔ جب میں ان کے ساتھ بات کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ یوسف حسین کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور اکثر حسین کا بولا ہوا جملہ وہ ختم کرتا ہے۔
پہلے دن جب میں ان سے ملا تھا تو وہ دونوں نشے کی عادت چھوڑنے کے بعد ہونے والے اثرات سے گزر رہے تھے جسے انگریزی میں ' وڈروئل' بولتے ہیں۔ ان کے جسم تھر تھرا رہے تھے اور ان کے بقول انہیں ایسا لگ رہا ہے جیسے ان کے جسم ' آگ اور سوئیوں' سے ڈھکے ہوئے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن نشے کے عادی افراد کے لیے کراچی میں چھ ری ہیب سینٹر چلاتی ہے جس میں کم از کم پینتالیس ہزار افراد کے لیے مفت علاج فراہم کیا جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک ری ہیب سینٹر میں ڈاکٹر اعیاز میمن کا کہنا ہے ' ہمارے پاس میتھاڈون جیسے علاج کے لیے ذرائع اور فنڈز نہیں ہیں'۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم مریضوں یا نشے کے عادی افراد کے لیے ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں ڈرگز کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
ایسے میں مریضوں کو جبراً ٹھنڈی ٹرکی' اور درد دور کرنے کے لیے پیراسٹمول دی جاتی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ری ہیب سینٹر میں جتنے بھی مریض داخل کرائے گئے ان میں بیشتر مرد ہیں اور ان کے خاندان والے انہیں ان کی مرضی کے خلاف یہاں لاتے ہیں۔ ایک بار جب وہ کلینک پہنچ جاتے ہیں تو انہیں بند کمرے میں سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی کلینک میں مریضوں کی نشے پر انحصار کے اعتبار سے انہیں چار مختلف زمروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جب میں کلینک کا دورہ کررہا تھا تو سلاخوں کے پیچھے کھڑے مریض مجھ سے کہہ رہے تھے کہ وہ ’اب وہ پوری طرح پہلے سے بہتر ہیں‘۔
ان میں سے ایک مریض نے مجھ سے ہاتھ ملانے کے لیے کہا میں نے ان سے ہاتھ ملایا۔ انہوں نے مجھے ایک تسبیح دی اور کہا کہ میں ان کے لیے دعا کروں۔
میں نے کراچی میں کئی ہفتے گزارے اور جب بھی میں ایدھی فاؤنڈیشن گیا میں نے دیکھا کہ مریض اپنے گھر والوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ اب ٹھیک ہیں اور وہ گھر جانے کے لیے تیار ہیں۔
کلینک کے سٹاف نے مجھے بتایا کہ بہت سارے مریض جاتے اور پھر چند ہفتوں میں واپس آ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو صرف چند دنوں میں انہیں واپس علاج کے لیے لایا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ علاج کے درمیان میں مریضوں کو لے جانے سے روکنے کے لیے وہ زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر ایاز کا کہنا ہے ' یہ یہاں سے واپس جانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، جھوٹ بول سکتے ہیں۔ وڈروئل پروسیز کے دوران اچھے لوگ بھی جھوٹ بولتے ہیں۔'
ان کا مزید کہنا ہے کہ جب یہ مریض واپس آتے ہیں تو ہم ان کا علاج پھر شروع کر دیتے ہیں۔
افغانستان میں جنگ کے بعد افیون کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے اور ساحلی راستے کے ذریعے کراچی میں افیون کی فراہمی آسان ہے۔ نشے کے عادی افراد نے مجھے بتایا کہ کراچی میں افیون کبھی کبھی کھانے سے بھی سستی ملتی ہے۔
ری ہیب سینٹر میں آٹھ دن گزارنے کے بعد حسین اور یوسف نے فیصلہ کیا کہ وہ ازسرنو اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلے گئے اور انہوں نے اس بات کا دعوی بھی کیا کہ ایدھی فاؤنڈیشن نے ان کی زندگی بچا لی۔
حسین واپس اپنی گھر جانے اور اپنے بچے کے ساتھ رہنے کے لیے پرجوش تھا لیکن جب وہ گھر گیا تو اس کی بیوی نے اسے دوبارہ قبول نہیں کیا۔
حسین کے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔ وہ سڑک پر سوتا ہے اور ایک ہوٹل میں کام کر کے اپنا گزارا کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کا بھائی یوسف ان کا فون اور پانچ سو روپے لے کر بھاگ گيا۔
حسین تنہا ہے۔ لیکن اب وہ نشے کا عادی نہیں۔ لیکن یہ نہیں معلوم وہ ایسے کتنے دن تک رہ پائے گا۔ بغیر نشے اور بغیر اپنے بھائی اور خاندان والوں کے ساتھ۔۔۔