چترال، کوراغ کے مستنصراحمد کو بہادر اللہ کے قتل کے مقدمے میں بری کردیا گیا ، جج ڈاکٹر خورشید اقبال نے رہائی کا حکم دے دیا

 چترال، کوراغ کے مستنصراحمد کو بہادر اللہ کے  قتل کے مقدمے میں بری کردیا گیا ، جج ڈاکٹر خورشید اقبال نے رہائی کا حکم دے دیا


ٹائمزآف چترال رپورڑ

آپ کو یاد ہوگا کہ 29 مارچ 2016 کو چترال، چرون   کے نوجوان طالب علم بہادر اللہ  ولد میر افسر خان کو قتل کرنے کے بعد لاش بھی لاپتہ کردی گئی گئی تھی، قتل کے اس واردات کے بعد 14 ماہ تو پولیس تفتیش و تحقیقات کرتی رہی لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تھی، جس کے بعد اس وقت کے ڈی پی او آصف اقبال پولیس کو کیس فوری حال کرنے کی ہدایت کردی تھی جس کے بعد گمشدہ لڑکے کے ایک دوست سید الدین جس کا تعلق کوراغ سے ہے کو پولیس نے تحویل میں لے لیا، مستنصر کو اس سے قبل ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ دونوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ، اور ادھر پولیس کی ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی جس کا انچارچ انسپکٹر عتیق الرحمٰن کو بنایا گیا، جس کے بعد ٹٰم نے ملزم مستنصر سے تفتیش شروع کردی جس کے بعد ملزم نے اقرار کرلیا کہ اس نے ہی بہادر کو قتل کرکے اس کی لاش کوارغ کے جنوبی اختتامی حدود میں دریا میں پھینک دی ہے۔ متوفی کی لاش تاہم ابھی تک کہیں بھی دریا سے برآمد نہیں ہوئی۔ ملزم کے اقرار جرم کے بعد پولیس نے قتل کی وجہ کسی کو نہیں بتائی ، اقرار جرم کے بعد پولیس نے سیکش 302 کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کردیا اور اسے عدالت کے سامنے پیش کیا، اور جج کے آگاہ کیا کہ ملزم نے اقرار جرم کرلیا ہے جس کے بعد عدالت نے مجرم کو جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل بھیج دیا تھا۔


گزشتہ دنوں پشاور ہائی کورٹ کے دارالقضاء سوات کے جج ڈاکٹر خورشید اقبال نے مختصر حکم نامے میں ایڈیشنل جج اپر چترال کے 27 اکتوبر 2021 کے فیصلے کو کالعد قرار دیتے ہوئے مجرم مستنصر کو بری الازام کرتے ہوئے رہائی کا حکم صادر کیا، اس کا ایف آئی آر بونی میں درج ہوا تھا۔ اپیل کنندہ کی جانب سے عبدلولی خان ایڈوکیٹ اور گوہر علی خان ایڈوکیٹ جبکہ ریاست کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رضا الدین اور شکایت کنندہ کی جانب سے جاوید علی خان اور فرید احمد ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔ مستنصر 6 سال سے مرداد جیل میں مقید تھے۔



أحدث أقدم