اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر اتفاق، سرحد کا نام خیبر پختونخواہ

بی بی سی اردو ڈاٹ کام ۔ آئینی اصلاحات کمیٹی کے اراکین نے اتفاقِ رائے کے بعد اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر دستخط کردیے ہیں۔ ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ اور ججوں کی تقرری پر کمیشن میں اضافی ممبر کی تجاویز شامل ہیں۔

جمعرات کو اسلام آباد میں اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو اٹھارویں ترمیم کا مسودہ پیش کر دیا ہے۔تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کس روز یہ مسودہ منظوری کے لیے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
اس موقع پر میاں رضا ربانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور جمہوری پاکستان کی بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے صوابدیدی اختیارات ختم کر کے اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔

یاد رہے کہ اصلاحاتی کمیٹی کا مینڈیٹ فوجی سربراہان کے دور میں متعارف کردہ ترامیم ختم کرکے آئین کو انیس سو تہتر والی شکل میں بحال کرنا ہے۔ یہ کمیٹی صدر کے اختیارات وزیراعظم اور پارلیمان کو سونپے جانے اور اسمبلی توڑنے کے بارے میں صدر کا اختیار ختم کرنے پر بھی کام کر رہی تھی۔

اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر گزشتہ ماہ مارچ کی پچیس تاریخ کو دستخط ہونے تھے لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ ججوں کی بھرتی کے طریقہ کار اور صوبہ سرحد کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا۔

طے شدہ نکات پر دوبارہ غور نہیں ہو گا: ربانی

کوئی ’یو ٹرن‘ نہیں لیا: نواز شریف

ججوں کی بھرتی، آئینی پیکج تعطل کا شکار

ایوانِ صدر کا کردار محض ’پوسٹ آفس‘ والا رہ جائے گا

بدھ کو رات گئے مسودے پر اتفاق رائے سے دستخط کیے گئے۔ اٹھارویں ترمیم میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیشن میں نواز لیگ کی تجویز کو منظور کیا گیا ہے اور کمیشن میں ایک ریٹائرڈ جسٹس بھی شامل کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی میں بھی اتفاق رائے ہوا اور صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ تجویز کیا گیا ہے۔

یاد رہے اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر رواں مہینے کی پچیس تاریخ کو دستخط ہونے تھے لیکن اس تقریب سے ایک گھنٹہ قبل پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں کی تقرری کے طریقۂ کار کے بارے میں حکومت اور ان کی جماعت میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا اس لیے آئینی پیکیج کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔

اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے اسمبلی میں واقع کمیٹی روم نمبر دو میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ میڈیا کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بڑی سنجیدہ کوریج کی۔ انہوں نے مزید کہا ’میں پاکستان کی عوام کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اتنا لمبا عرصہ اس کمیٹی کی سفارشات کا انتظار کیا۔‘

ہمارے نامہ نگار ارمان صابر سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ان کی جماعت کے تحفظات بہت حد تک دور ہو گئے ہیں۔
"جب اے این پی اور نواز لیگ نے صوبہ سرحد کا نیا نام تجویز کیا تو ہماری جماعت اس سے متفق نہیں تھی اور اسی لیے ہم نے اس تجویز کے حوالے سے مسودے میں اختلافی نوٹ لکھا ہے۔"

ایس ایم ظفر

انہوں نے کہا کہ ایک تحفظ ججوں کی تقرری کے جوڈیشل کمیشن پر تھا۔ ’اس کمیشن میں چھ اراکین تھے اور اگر ان میں ٹائی ہو جائے تو فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس پر کمیٹی میں اتفاق ہوا کہ ساتواں رکن شامل کیا جائے جو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس یا چیف جسٹس ہوں۔ تاہم اس پر بھی ہمارا تحفظ تھا کہ اگر ساتویں رکن کو منتخب کرنے پر بھی ٹائی ہو جائے تو پھر کیا ہو گا۔ اسی لیے ہماری تجویز تھی کہ پاکستان کے چیف جسٹس کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ ساتویں رکن کو منتخب کریں جس پر کمیٹی کا اتفاق ہوا ہے۔‘

احسن اقبال نے کہا کہ اب حکومت پر بہت بڑی ذمہ داری آ گئی ہے کہ وہ عام افراد کی مشکلات کو حل کرنے میں زیادہ کام کرے۔

میڈیا سے بات کرتہ ہوئے مسلم لیگ ق کے سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا کہ اس مسودے کو ایک بار پھر پڑھنے کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ آج ہی پڑھ لیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ ایک دو دن میں اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔

انہوں نے صوبہ سرحد کے نئے نام کے حوالے سے کہا کہ اس بارے میں اے این پی اور نواز لیگ میں مذاکرات ہو رہے تھے اور ان کی جماعت ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھی۔ ’جب دونوں جماعتوں نے نیا نام تجویز کیا تو ہماری جماعت اس سے متفق نہیں تھی اور اسی لیے ہم نے اس تجویز کے حوالے سے مسودے میں اختلافی نوٹ لکھا ہے۔‘

وفاقی وزیر برائے قانون بابر اعوان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام ترامیم پر پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی رائے اور اتفاق شامل ہے۔

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post