اکیسویں صدی اور مسلمان ۔ ٭مولانا محمد اسرار الحق قاس: بشکریہ اردو ٹائمز انڈیا

آئے دن منظرعام پر آنے والی رپورٹیں واضح طورسے یہ بیان کررہی ہیںکہ مجموعی اعتبار سے عالمی سطح پر مسلمان ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہیں۔معاش ‘تعلیم ‘سیاست ‘غرض تمام اہم میدانوں میںمسلمانوںکی صورت حال تشویشناک ہے ۔ ہندوستان میںسچر کمیٹی کی رپورٹ اوردیگر سرکاری وغیرسرکاری رپورٹیں بتاتی ہیںکہ ملک میںمسلمان جن کی تعداد انڈونیشیا کے بعدسب سے زیادہ ہے ‘ پسماندگی سے دوچارہیں اوردیگرتمام طبقات کے مقابلے میں پچھڑے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ایک اورخبرمنظرعام پر آئی ہے جس میںکہا گیا ہے کہ ہندوستان میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوںکی تعداد قریب ایک تہائی ہے ۔ اس خبرکے مطابق خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی ماہانہ آمدنی ایک ہزارروپئے بھی نہیںہے ۔ گویا کہ ہندوستان میں کروڑوں مسلمان انتہائی کسمپرسی اورفاقہ کشی کی زندگی گذارنے پرمجبورہیں۔ ایک طرف اشیا ءخوردنی کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں‘ آٹا ‘چاول ‘تیل ‘دالوں اورسبزیوں کی قیمتیں بھی بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ ایسے میںایک ہزارسے کم میںپورے مہینہ کی ضروریات کو پورا کرنا کتنا مشکل ہوگا ‘اندازہ کیاجاسکتاہے ۔چندممالک کوچھوڑکر تقریباً تمام ملکوںمیںمسلمانوں کی حالت قریب ایک جیسی ہی معلوم ہوتی ہے ۔

تعلیمی سطح پر مسلمانوںکی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ مسلمانوںکی ابترمعاشی صورت حال سے لگایاجاسکتاہے ۔چونکہ دنیا مادی ترقی کی طرف بڑ ھ رہی ہے ‘اس لئے تعلیم لحظہ بہ لحظہ مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔ رپورٹوں سے معلوم ہوتاہے کہ پانچ یا چھ سوروپئے ماہانہ فیس والے اسکولوں کا کوئی تعلیمی معیارہے ہی نہیںجوکہ بہت سے مسلمانوں کی کل آمدنی ہے یعنی بہت سے مسلمان اپنے بچوں کوان غیر معیاری اسکولوں میںبھی تعلیم نہیںدلاسکتے ہیں۔ وہ اسکول جہاں تعلیم کا معیار بلند ہے وہاں ماہانہ فیس ہزاروںمیں ہے ۔ یعنی چند فیصدکوچھوڑکر بقیہ فیصد مسلمان ان اسکولوںمیں اپنے بچوںکوتعلیم دلانے کی بابت سوچ بھی نہیںسکتے ۔ سیاسی سطح پربھی ان کی کوئی حیثیت نہیںہے ۔ جوچاہتا ہے ان کا استعمال کرلیتا ہے اوروہ ہرانتخاب کے بعدوہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ 
تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلمان اتنے پسماندہ اچانک نہیںہوگئے بلکہ گزشتہ کئی صدیوںسے وہ بتدریج انحطاط کے شکارہیں۔ ورنہ ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ پوری دنیا میںان کا شوروشورہ تھا ۔ ان کا شمار ترقی یافتہ اورزندہ دل قوموںمیںہوا کرتا تھا اور انہیںشاندار تہذیب ‘سلیقہ مندی اوراعلیٰ ترین اخلاق واقدار کے آئینہ میں دیکھا جاتا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ عہد حاضرمیںدیگراقوام نے تواپنی شب وروزکی کاوشوں ‘کھوجوں اور محنتوں کے بعدمعاشی ‘ سیاسی ‘ تہذیبی ‘ دفاعی اورتحقیقی وفکری لحاظ سے نمایاں کامیابی حاصل کی ‘لیکن مسلمان معاشیات‘ سیاسیات ‘تحقیق ‘دفاع اورتعلیم سے دورہوگئے ۔ اس وقت مغربی اقوام اقتصادی ‘ سیاسی اورتہذیبی بالا دستی رکھتی ہیں۔ امریکہ کے ”ڈالر “اوریورپ کے ”یورو“ کوپوری دنیا میں زبردست مقبولیت حاصل ہورہی ہے ۔ اگرایک طرف عالمی تجارتی منڈیوں میںانہیںکی بالادستی ہے توعالمی مارکیٹوںمیں بھی انہیں کے تیارکردہ پروڈکٹس کی بڑے پیمانہ پر کھپت ہوتی ہے ۔ اس لئے ان کی کرنسی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت بلند ہے۔ اس کے برعکس مسلم حکومتیں ان کے مقابلے میںکافی پیچھے ہیں۔ اگرمتحدہ عرب امارات اورملیشیا سمیت چند ممالک کوچھوڑدیاجائے توزیادہ ترمسلم ممالک کی کرنسی بڑی حد تک گری ہوئی ہے تیل اورپٹرول کے قدرتی ذخائر کے علاوہ مسلم ممالک کے تیارکردہ پروڈکٹس عالمی مارکیٹ میںنظر نہیں آتے۔ یہی حال دفاع کا بھی ہے کہ دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ہونے کے باوجود ان کے پاس دفاعی سازوسامان نہیںہے اورامریکہ یا مغربی ممالک کے مقابلے میںوہ مجبور شخص بنے ہوئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی مسلمانوں کا کوئی مقام نہیںہے ۔ اگربات تحقیق وجستجو کی کریںتواس اعتبار سے بھی مسلمان بڑی حد تک پچھڑگئے ۔تعلیم جونوع انساں کے لئے انتہائی اہم ہے ‘زیادہ تر مسلمانوںمیں اس کا بھی فقدان ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ رواں صدی میں مسلمانوںکو نازک حالات اورپسماندگی وانحطاط کے دائرے سے کیسے نجات دلائی جائے ۔ دوسرے یہ کہ کیسے انہیںترقی کی راہ میں رواں دواں کیاجائے ۔ اگرچہ مختلف میدانوںمیںجذبات واستقلال کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ‘ البتہ ان میںتعلیم کی طرف توجہ کومرکوز کرنا سب سے اہم اوراولین تقاضہ ہے ‘لیکن تعلیم کے حصول کا مطلب یہ نہیںکہ اندھا دھند تحصیل علم کی طرف بڑھا جائے اورغیرمنظم اندازسے تعلیم حاصل کی جائے ‘بلکہ تعلیم کوبہترنظام اوراچھے طریقہ سے مسلمانوںمیں رواج دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ 
تعلیمی خاکہ کے طورپر بنیادی طور سے تعلیم کودوحصوںمیںتقسیم کیاجاسکتاہے۔ اول ابتدائی تعلیم ‘دوم اعلیٰ تعلیم ۔ ابتدائی وبنیادی تعلیم میں ان مضامین کوشامل کیاجائے جوہر شخص کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً دینی تعلیم ‘ کیونکہ ہر صاحب ایمان کوپوری زندگی دینی تعلیم سے واسطہ پڑتاہے ۔ اس کا کوئی بھی دن بغیردین کے مکمل نہیںہوتاہے ۔ اسی طرح بنیادی تعلیم میں ان عصری مضامین کوبھی شامل کیاجائے جوموجودہ حالات میںزندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً مادری وقومی زبانوںسے واقفیت‘ مادری زبان پرعبور اورقومی زبان سے اس قدرشناسائی کہ سرکاری اورقومی سطح کے معاملات کو انجام دیاجاسکے۔ دستاویزات کوپڑھ ‘ سمجھ سکے اور ضرورت کے مطابق لکھ سکے۔ ایک بین الاقوامی زبان بھی آئے تویہ بھی کیریئر کے لئے مفید ہے۔ کیونکہ یہ دورگلوبلائزیشن کا ہے ‘امپورٹ وایکسپورٹ کا زمانہ ہے ‘ اس لئے رابطہ کے طورپر کوئی بین الاقوامی زبان کا حصول بھی فائدے سے خالی نہیں ہے ۔ زبان کے علاوہ ”ریاضی “میںبھی ہرشخص کے لئے قدرے مہارت ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ بقدرضرورت سائنس ‘جغرافیہ ‘ تاریخ اورطب جیسے علوم سے شناسائی بھی ضروری ہے ۔ 
اعلیٰ تعلیم میںایسے تمام مضامین شامل ہونے چاہئیں ‘جووقت کی ضرورت ہوں اورجن کی بنیاد پربڑے پیمانہ پر خلق خدا کی خدمت انجام دی جاسکتی ہو۔ دینی لحاظ سے فقہ ‘ تفسیر ‘حدیث اوراسلامک اسٹڈیزر کے ایسے مراکزہوں‘جہاںسے متعد دمسلمان فقہا ‘ علما ء‘ مفسرین ‘ محدثین اوراسلامی اسکالرزبن کرنکلیں۔ تاکہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کی بنیادپر بڑے پیمانہ پر دینی خدمات انجام د ے سکیں۔ عصری مضامین میں”انفارمیشن ٹیکنالوجی “ ‘ ” انجینئرنگ “ ‘ ” میڈیکل “اور دیگرپروفیشنل علوم پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ 
انفارمیشن ٹیکنالوجی اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ زمانہ میں آئی ٹی (I.T)کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے ۔ انجینئرنگ میںبھی بہت سے شعبے ہیں‘میڈیکل میںایم بی بی ایس ‘ایم ڈی اوردیگر مخصوص ڈگریوں کے حصول کی بھی تگ ودوکی جانی چاہئے ۔ علاوہ ازیں سیاسیات ‘سماجیات ‘نفسیات‘ریاضی ‘ سائنس اور تاریخ میںبھی اعلیٰ تعلیم ضروری ہے تاکہ جہا ں ان علوم کے حصول کے بعدمعاشیات میںاستحکام آئے ‘وہیں دیگرلحاظ سے بھی ترقی ممکن ہو۔ ۲۱ویں صدی میںتعلیمی سطح پرکام کرنے کے لئے موجودہ تعلیمی خاکہ کوکامیابی کے ساتھ نافذ کردیاجائے تواگلی چنددہائیوں میںبڑی حصولیابی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ معاشرتی اورمعاشی سطح پربھی بیداری ضروری ہے ۔ جس قوم کی تہذیب ومعاشرت دم توڑدیتی ہے اس کی شناخت بھی گم ہوتی جاتی ہے ۔ اسی طر ح معاشی پسماندگی بھی بہت سے معاملات میں انسان کومجبور بنادیتی ہے ۔ اس لئے مسلمانوںکو چاہئے کہ وہ تعلیم کے ساتھ معاش اورتہذیب ومعاشرت پربھی پوری توجہ دیں۔ 
 

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post