پانچ سو سکول تباہ، چھ ہزار اساتذہ
مجبور، بی بی سی اردو ڈات کام رپورٹ
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حکام کے مطابق گزشتہ پانچ برس
کے دوران پانچ سو کے قریب تعلیمی ادارے شدت پسندی کے کارروائیوں میں تباہ ہو چکے
ہیں جس کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہوگئے ہیں۔ بی بی
سی کی خصوصی رپورٹ۔
پاکستان
کے قبائلی علاقوں میں حکام کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران پانچ سو کے قریب تعلیمی
ادارے شدت پسندی کے کارروائیوں میں تباہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے پانچ
لاکھ سے زیادہ
بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہوگئے ہیں۔
محکمہ
تعلیم فاٹا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہاشم خان آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ قبائلی علاقوں
میں جاری شدت پسندی کی کارروائیوں کے دوران اب تک چار سو پچاسی تعلیمی ادارے تباہ ہو
چکے ہیں۔ ان میں کالج، ہائیر سیکنڈری سکول، ہائی سکول، مڈل اور پرائمری سکول شامل ہیں۔
انہوں
نے کہا کہ ان سکولوں کے تباہ ہونے کی وجہ سے تقریباً پانچ لاکھ بچوں کا تعلیمی سلسلہ
بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ لیکن بعض تباہ ہونے والے سکولوں کے لیے متبادل مقامات کا بندوبست
کیاگیا ہے اور کچھ سکولوں کے لیے خیمے دیے گئے ہیں۔ جبکہ زیادہ تر سکول مقامی رہائشیوں
کے گھروں اور حجروں میں منتقل کیےگئے ہیں۔ بعض جگہوں پر تناور درختوں کے نیچے تعلیمی
سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔
اہلکار
کے مطابق ان متبادل مقامات پر شروع کیے جانے والے سکولوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔
ان سکولوں پر خرچے کے لیے سعودی عرب اور عرب امارات کا تعاون حاصل ہے۔ انہوں نے کہا
کہ ان کوششوں سے تقریباً پچاس فیصد بچوں کا تعلیمی سلسلہ بحال کر دیاگیا ہے لیکن پھر
بھی پچاس فیصد بچے مکمل طور پر تعلیم کی حصول سے محروم ہوچکے ہیں۔
اہلکار
کے مطابق گھروں میں تنخواہ لینے والے اساتذہ ڈیوٹیوں سے انکاری نہیں ہیں لیکن ان کے
سکول تباہ ہوچکے ہیں۔ جب یہ سکول دوبارہ تعمیر ہو جائیں گے تو تمام اساتذہ بھی اپنے
ڈیوٹی پر حاضر ہو جائیں گے۔
ان
کا کہنا تھا کہ تباہ شدہ سکولوں کی یہ تعداد صرف سرکاری تعلیمی اداروں کی ہے جبکہ پرائیوٹ
تعلیمی اداروں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
سرکاری
تعلیمی ادارے تباہ ہونے کی وجہ سے اکثر بچے اس لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے
ہیں کیونکہ ایک طرف گھر کے اخراجات پورے کرنے ہیں اور دوسری طرف پرائیوٹ سکولوں میں
فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔
درویش
خان خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں کوہی شیر حیدر انٹر کالج میں سیکنڈ ائیر کے طالب
علم تھے۔ دو سال پہلے ان کے کالج کو دھماکے سے تباہ کر دیا گیا تھا جس کے بعد ان کا
کالج بھی بند ہوگیا ہے۔ ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور وہ کارخانوں مارکیٹ
میں ایک ورکشاپ میں کام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
درویش
خان کا کہنا ہے کہ کالج میں ان کے اکتالیس کلاس فیلو تھے اور کالج کے اساتذہ میں سے
اکثر پشاور کے بندوبستی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
انہوں
نے کہا کہ دو سال پہلے باڑہ میں فوجی آپریشن کے دوران ان کے کالج میں رات کے وقت نامعلوم
افراد نے بم دھماکے کیے جس سے کالج کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ انہوں نے بتایا
کہ ان دھماکوں کے بعد باہر سے آنے والے اساتذہ نے خوف کی وجہ سے کالج آنا چھوڑ دیا
اور آہستہ آہستہ کالج مکمل طور پر بند ہوگیا۔
درویش
خان کا کہنا تھا کہ ان کے کلاس فیلوز میں سے پانچ ایسے تھے جن کی معاشی حالت کچھ بہتر
تھی اور انہوں نے پشاور کے دوسرے کالجوں میں داخلہ لے لیا۔ اور باقی چھتیس طلب علم
خیبر ایجنسی اور پشاور کے مختلف علاقوں میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
"کلاس
فیلوز میں سے پانچ ایسے تھے جن کی معاشی حالت کچھ بہتر تھی اور انہوں نے پشاور کے دوسرے
کالجوں میں داخلہ لے لیا۔ اور باقی چھتیس طلب علم خیبر ایجنسی اور پشاور کے مختلف علاقوں
میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں"
درویش
خان
انہوں
نے بتایا کہ باڑہ کالج ان کے گھر کے قریب تھا اور وہ پیدل کالج جاتے تھے جس وجہ سے
ان کا ایک روپے کا خرچہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اب اگر وہ کسی دوسرے کالج میں داخلہ لے
سکے تو ان کے آنے جانے کا خرچہ صرف پانچ سو روپے روزانہ کے حساب سے بنتا ہے جو ان کے
لیے ناممکن ہے۔
مہمند
ایجنسی تحصیل صافی کے علاقے کندارو کے رہائشی ظاہر شاہ نے بتایا کہ مہمند ایجنسی میں
سب سے زیادہ سکول تحصیل صافی میں تباہ ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں بچے تعلیم سے محروم
ہوگئے ہیں۔
انہوں
نے کہا کہ ان کے گاؤں میں ایک سرکاری ہائی سکول ہے جس میں پورےگاؤں کے لڑکے تعلیم حاصل
کر رہے تھے لیکن یہ سکول دسمبر دو ہزار اٹھ میں سکیورٹی فورسز کی بمباری میں اس وقت
تباہ ہوا جب سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کے دوران شدت
پسندوں نے سکول میں ٹھکانہ بنا رکھا تھا۔
ظاہر
شاہ کے مطابق سکول میں اب بھی کلاسیں چل رہی ہیں۔ لیکن اس کی عمارت ابھی تک ایک ملبے
کا ڈھیر ہے۔ جبکہ بچے کُھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور ہیں۔
انہوں
نے کہا کہ ان کا بھتیجا یسین خان اٹھویں کلاس میں اسی سکول میں پڑھ رہا تھا لیکن سکول
تباہ ہونے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منعقطع ہوگیا ہے۔ تاہم اس سال انہوں نے میٹرک
کا امتحان پرائیوٹ طور پر دیا لیکن ان کی پوزیشن اچھی نہیں تھی۔
اگر ایک طرف لاکھوں قبائلی متاثرین اپنے گھروں سے دور روزگار
کی تلاش میں در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں تو دوسری طرف ان قبائلیوں کے آنے والی نسلوں
کو تعیلم کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ یہ حکومت کے لیے ایک بُہت بڑا چلینج ہے۔