ابو لہب کے متعلق قرآن مجید کی پیشین
گوئی
کاتب: طارق اقبال
ابو لہب
کا اصل نام عبدالعزٰی تھا۔ قرآن مجید میں صرف اسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی
گئی ہے حالانکہ مکہ میں بھی اور ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو
اسلام اور پیغمبر اسلام کی عداوت میں ابو لہب سے کسی طو رپر بھی کم نہ تھے۔ یہ شخص
مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے قریبی ہمسایہ تھا، دونوں گھروں کے درمیا
ن صرف ایک دیوار حائل تھی۔ یہ اور اس کے اہل خانہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو
کبھی چین لینے نہیں دیا تھا۔ آپ کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ بکر ی کی اوجھڑی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینک دیتے۔ ہنڈیا میں غلاظت ڈال دیتے۔ ابو لہب کی بیوی امّ
جمیل کا تو روزانہ کا کسب یہی تھا کہ وہ راتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے
دروازے پر خاردار جھاڑیاں لاکر بچھاد یتی تھی تاکہ صبح سویرے جب آپ یا آپ کے بچے
باہر نکلیں تو کوئی کانٹا پاؤں میں چبھ جائے۔
اس کے علاوہ بھی یہ شخص ہر اس جگہ
پہنچ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا جہاں آپ دعوتِ دین کے لیے
جاتے اورلوگوں کو آپ کے خلاف اُکساتا۔(1)
چنانچہ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ا س
شخض کانام لے کر درج ذیل سورة مبارکہ میں اس کی اور اس کی بیوی کی مَذمت فرمائی:
(تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ
لَھَبٍ وَّتَبَّ ۔ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ وَمَاکَسَبَ ۔ سَیَصْلٰی نَارًا
ذَاتَ لَھَبٍ ۔ وَّامْرَاَتُہ ط حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ۔ فِیْ جِیْدِھَا حَبْل
مِّنْ مَّسَدٍ )
”ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اورنامراد
ہوگیا وہ۔اُس کا مال اورجو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ شعلہ
زن آگ میں ڈالا جائے گا اور(اُس کے ساتھ)اُس کی جورو(بیوی)بھی ،لگائی بجھائی کرنے
والی ،اُ س کی گردن میں مونجھ کی رسّی ہوگی ”(2)
اس سورة مبارکہ میں بالواسطہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ابولہب
اور اس کی بیوی کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کی موت ذلت آمیز ہوگی۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا ،حالانکہ یہ سورة مبارکہ ابولہب کی موت سے تقریباً10 سال پہلے
نازل ہوئی تھی، اگر وہ اسلام قبول کرلیتا تو نعوذباللہ قرآن غلط ثابت ہو سکتا
تھامگر ایسانہیں ہوا ۔(3)اور لطف کی بات یہ کہ اس کی موت کے بعد اس کی
بیٹی درّہ اور اس کے دونوں بیٹوں عُتبہ اور متعب نے اسلام قبول کرلیا۔ (4)
تفاسیر میں آتاہے کہ جنگ بدرمیں قریش
کی شکست کی جب اسے مکہ میں خبر ملی تو اُ س کو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ
زندہ نہ رہ سکا۔ پھر اس کی موت بھی نہا یت عبرتناک تھی۔ اسے عَدَسَہ (Malignant Pustule)کی بیماری ہو
گئی جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اُسے چھوڑدیا ،کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر
تھا۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش
سڑگئی اوراس کی بو پھیلنے لگی۔ آخرکار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع
کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی
اورانہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا اوردوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا
کھدوایا اورلکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اوراوپر سے مٹی ڈال کر
اسے ڈھانک دیا۔ (5)چنانچہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں یہ فرمان حرف
بحرف سچ ثابت ہوا جو اس کی سچائی کی ایک اور واضح دلیل ہے۔
……
Post a Comment
Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.