لواری ٹنل.... اہل چترال اپنے محسنوں کو نہیں بھولتے Lawari Tunnel .... Chitral people do not forget their friend.


ہمارے میڈیا کے دوست ماشا اللہ عجیب لوگ ہیں، اِس ترقی یافتہ میڈیا کی دوڑ اب کچھ ایسی بے ڈھب ہو کر رہ گئی ہے کہ بعض معاملات میں کسی تحقیق کے بغیر بعض سنی سنائی خبروں کو بھی نیوز بلیٹن کا حصہ بنا لیا جاتا ہے یا ایسی خبروں کے ”ٹِکرز“ چلا دیئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایسی ہی ایک خبر صوبائی محتسب جناب جاوید محمود کے بارے میں چلا دی گئی کہ نگران وزیراعلیٰ کے حکم پر جن ریٹائرڈ سول سرونٹس کو مشیروں وغیرہ کی آسامیوں سے اُن کے کنٹریکٹ ختم کر کے الگ کر دیا گیا ہے، اُن میں صوبائی محتسب بھی شامل ہیں، حالانکہ اس کی قانونی اور آئینی پوزیشن یہ ہے کہ وہ حلف لے کر آئے ہیں اور اُن کا عرصہ ملازمت بطور کنٹریکٹ افسر چار سال ہے اور انہیں آئے ہوئے ابھی مشکل سے صرف ایک مہینہ ہی گزرا ہے۔ یاد رہے کہ جن آسامیوں پر، جیسا کہ پبلک سروس کمیشن، سروس ٹریبونل وغیرہ میں بطور ممبر جب آپ بھرتی ہوتے ہیں، توا پنے عہدے کا حلف لیتے ہیں اور پھر آپ خود چاہیں تو بھی دو سال تک استعفا نہیں دے سکتے اور نہ ہی کسی انتظامی حکم کے تحت آپ کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ جتنے عرصے کا آپ کا کنٹریکٹ ہوتا ہے، اتنا عرصہ آپ پورا کرتے ہیں۔ یہی صورت حال جاوید محمود کی ہے، انہوں نے چار سال کے لئے اس عہدے کا حلف لیا ہے، چنانچہ اِس سے پہلے اُن کی برطرفی کا کوئی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔ جب یہ خبر چلی ، تو اُن کے ایک دوست نے اس خبر کے بارے میں اُن سے دریافت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تو اپنے دفتر میں کام کر رہے ہیں۔ اُن تک ایسا کوئی حکومتی حکم نہیں پہنچا۔


بشکریہ ڈیلی پاکستان 

آج کل یہی صورت حال ہمارے میڈیا نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) پرویز مشرف کے بارے میں شروع کر رکھی ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ چونکہ اعلیٰ عدلیہ نے اُن کے 3نومبر 2007ءکے ایمرجنسی لگانے کے حکم کو 2009ءمیں غیر قانونی اور آئین کی شق6 کے خلاف قرار دے دیا تھا، اس لئے اب انہیں سیدھے جیل بھجوایا جائے۔ خدا کے لئے کوئی ان بحث مباحثہ کرنے والوں کو سمجھائے کہ2009ءمیں اس عدالت کے پاس کوئی مقدمہ نہیں تھا، جس میں انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہو۔ اب اگر کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے، تو اس کی ایف آئی آر ہو گی۔ ایک ملزم یا ملزمان کے نام ہوں گے اور پھر اس ملزم یا سب کو اپنی صفائی پیش کرنے کا بھی اختیار ہو گا، یعنی کوئی بھی عدالت یک طرفہ فیصلہ نہیں کر سکتی،اگر ایسا ہو جائے اور ملزم یا ملزمان کو صفائی کا موقع نہ مل سکے، تو پھر یہ مقدمہ دوبار کھل جاتا ہے۔

 آج بھی جو صورت حال ہے، ان پر غداری کے مقدمے کے بارے میں اس کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ بطور چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف نے اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں ہی کوئی فیصلہ کیا ہو گا اور کیبنٹ ڈویژن میں اس میٹنگ کی کارروائی کی تفصیل پڑی ہو گی۔ پہلے اسے حکومت دیکھے گی ، پھر اگر حکومت نے ضروری خیال کیا ، تو پھر مقدمہ بازی ممکن ہو سکے گی۔ نہ جانے ایف آئی آر تک میں کتنا عرصے لگ جائے اور نہ جانے عدالت فیصلے میں کتنا وقت لے۔

اصغر خان کیس میں16سال کے بعد فیصلہ آیا، پھر یہی نہیں، اس فیصلے کی رو سے جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا ضروری تھا، کیا اُن کے خلاف آج تک کوئی کارروائی سامنے آئی ہے۔ محض رپٹ درج کرانے سے یا مقدمہ درج کرانے سے کوئی مجرم نہیں ہو جاتا اور نہ ہی الیکشن کے لئے نااہل۔ سپریم کورٹ اب ہو سکتا ہے کہ بطور ایک امیدوار انتخابات جنرل(ر) پرویز مشرف کی پوزیشن کو سامنے رکھے، کیونکہ اِس وقت اس کا کوئی بھی فیصلہ اُن کی امیدواری کے خلاف یا حق میں ہو سکتا ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ وہ الیکشن کے بعد ہی اِس ضمن میں باقاعدہ کوئی سماعت کر سکے، کیونکہ کسی بھی امیدوار کے خلاف یا حق میں کوئی بھی عدالتی فیصلہ اس کی بطور امیدوار حیثیت کے متعلق تو ریٹرننگ آفیسر یا ٹریبونل (الیکشن کمیشن) کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ باقی کے معاملات اب تو الیکشن کے بعد ہی سنے جا سکیں گے۔ ایسے تو ہزاروں مقدمات زیر سماعت پڑے ہیں، جن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہیں۔

اہل چترال جہاں سے اب شاید جنرل(ر) پرویز مشرف الیکشن لڑیں، اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ لواری ٹنل کا حکم ظاہر ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے ہی چترال جا کر دیا تھا، جس سے چترال والوں کا راولپنڈی آنے میں جہاں بہت وقت بچتا ہے، وہاں ٹرانسپورٹ کے کرایہ جات بھی کم ہوئے ہیں اور اب اُن کا پٹرول یا ڈیزل وغیرہ بھی بہت کم خرچ ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے وہ اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ وہاں پر دینی جماعتیں بھی جنرل(ر) پرویز مشرف کا ساتھ دے رہی ہیں، لہٰذا ممکن ہے کہ وہ وہاں سے کامیاب قرار پائیں۔ لوگ آج بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کا زمانہ یاد کرتے ہیں۔ اس وقت گھی، آٹا، پٹرول کی قیمتیں تین گنا کم تھیں، سونے اور ڈالر کے ریٹ بھی بہت کم تھے، بلکہ نصف سے بھی کم تھے، حتیٰ کہ لوڈشیڈنگ بھی آج کے دور کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے کم تھے، پی آئی اے اور ریلوے میں خوش حالی تھی، جبکہ آج کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ پی آئی اے کے کرائے ہوش رُبا ہیں، جبکہ ریلوے تو دکھائی ہی نہیں دیتی۔

اب توحالت یہ ہے کہ ویران ریلوے سٹیشنوں پر جھگی نشینوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، لہٰذا اب ووٹر اپنی مرضی کے فیصلے کریں گے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف نے کیا اچھا کیا اور کیا خرابی کی، اِس پر میڈیا پوری آزادی کے ساتھ بحث کر سکتا ہے، تاہم ایسے ٹکرز چلانا کہ انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے، اُن کے حامیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہیں اور شاید ایسی کسی بات کا وجود ہی نہ ہو۔ آپ بے شک ایسے کارٹون شائع کریں کہ تالاب میں گِرا ہوا پرویز مشرف چاروں طرف دیکھ رہا ہے کہ اُسے تالاب میں دھکا کس نے دیا ہے، یعنی پاکستان آنے کا مشورہ کس نے دیا ہے، لیکن ایسے نہیں کہ اُسے رسیوں سے گھسیٹ کر کوئی لے جا رہا ہو، اِس لئے کہ اگر عدالت کوئی سزا بھی دے، تب بھی ایسا کوئی کارٹون شائع کرنے کے مجاز نہیں، جس سے کسی کی ہتک یا توہین کا پہلو دکھائی دیتا ہو یا جو کسی کی دل آزاری کے مترادف ہو۔ جنرل(ر) پرویز مشرف نے میڈیا کو جو آزادی دی، وہ شاید کسی بھی جرنیل کے زمانے میں ممکن نہ ہوتا، لہٰذا میڈیا بھی اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کی روایت کی پاسداری کرے۔

یہ مضمون آج کے رازنامہ پاکستان میں شائع ہوا ہے۔۔۔ ہم روزنامہ پاکستان کے شکریہ کے ساتھ یہ مضمون اپنے بلاگ پر شائع کر رہے ہیں۔  ارادہ

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post