نواز لیگ رہنما خوشامدی رویوں، جو بقول حبیب جالب’’کرگس کو ہما‘‘قرار دے دیں،کو پسند کرتے ہیں… کی اعلیٰ قیادت خود کو انتہائی پارسا اور درست سمجھتی ہے: ایاز امیر

نواز لیگ کی طرف سے چکوال کی نمائندگی کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے مجھے جن تین چیزوں کا تجربہ ہوا وہ یہ ہیں کہ اس جماعت کے رہنما خوشامدی رویوں، جو بقول حبیب جالب’’کرگس کو ہما‘‘قرار دے دیں،کو پسند کرتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اس کی اعلیٰ قیادت خود کو انتہائی پارسا اور درست سمجھتی ہے اور تیسری یہ کہ ان کی صلاحیتیں بے حد مبالغہ آرائی کے باوجود عامیانہ درجے کی ہیں۔
یہ باتیں دل پر بوجھ تو تھیں تاہم میں ایک طرح کے جال میں پھنس چکا تھا۔ میں نے 1998ء میں پنجاب اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں کیونکہ مجھے احساس ہو چکا تھا کہ انتخابی سیاست میں داخل ہو کر میں نے اپنے اندر کے صحافی کے لیے مشکلات پیدا کر لی ہیں۔ اب کالم نگاری کو داؤ پر لگا کر سیاست کرنا کوئی خوشگوار تجربہ نہ تھا لیکن مشرف کے شب خون اور چکوال کی مقامی سیاست مجھے ایک مرتبہ پھر ن لیگ کے حلقے میں کھنچ لائی۔
اُس وقت چکوال کے تمام چھوٹے بڑے سیاست دان ، ضلع ناظم ، ن لیگ کے سابق وفاقی وزیر مجید ملک، مشرف کے کیمپ میں جا چکے تھے ۔ ان کے جانے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کیمپ تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ اُس صورتِ حال میں مقامی طور پر میں نے ن لیگ کے بگڑتے ہوئے تواز ن کو سہارا دینے کے لیے ان کے ٹکٹ پر 2002ء کے انتخابات ، جو پرویز مشرف کی نگرانی میں ہوئے، میں حصہ لیا۔ اُس وقت ن لیگ کا ٹکٹ لینا خود کو داؤ پر لگانے کے مترادف تھا، تاہم ، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میں نے جیتنے والے امیدوار کے 71,500 ووٹوں کے مقابلے میں 70,000ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح میں صرف پندرہ سو ووٹوں کے فرق سے ہارا۔اگر کچھ نادیدہ فرشتے، جو انتخابی عمل میں بہت فعال ہوجاتے ہیں، مداخلت نہ کرتے تو نتائج شاید مختلف ہوتے۔




Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post