خسروؒ کے قبیلے کا نام ہزارہ لا چین تھا۔ آپ کے والد ماجد کا نام امیر سیف الدین محمود ہے۔ ْچنگیز خان کے زمانے میں ہندوستان تشریف لائے۔ خسرو کا نام ابوالحسن ہے۔ آپ مومن آباد جو اب پٹیالی کے نام سے مشہور ہے، میں پیدا ہوئے۔ جب آپ کی عمر نو سال کی ہوئی، والد کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ کے ایک رشتہ دار نے آپ کی تعلیم و تربیت پر کافی توجہ دی۔محبوب الٰہی کے دروازہ پر باہر بیٹھ کر آپ نے درج ذیل قطعہ لکھ کر اندر بھیجا: تو آں شاہے کہ بر دیوار قصرت کبوتر گرنشیند باز گردد غریبے، مستمندے بردرت آمدہ بیائید اندروں یا باز گردد اندر سے آپ نے اس کا جواب درج ذیل بھجوایا : بیائید اندرون گر مرد حقیقت تاچند دمے بامن ہمراز گردد اگر ابلہ بود آں مردِ ناداں ازاں را ہے کہ آمد باز گردد آپ یہ اشعار سن کر محبوب الٰہیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بیعت سے مشرف ہوئے۔ خلوص، اعتقاد اور محبت نے اپنا کام کیا اور کچھ ہی دنوں میں آپ کو اپنے پیر و مرشد کی عنایت، محبت، شفقت اس درجہ حاصل ہوئی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔امیر خسرو سلطان غیاث الدین بلبن کے لڑکے شہزادہ محمد سلطان خاں کے پاس ملتان ملازم تھے۔ شہزادہ سلطان کے شہید ہونے کے بعد آپ نے دہلی آکر امیر علی کی ملازمت اختیار کر لی۔ جلال الدین خلجی کے تخت پر بیٹھنے کے بعد آپ اس کے مقربِ خاص ہوئے۔ غرض سلطان قطب الدین مبارک شاہ تک ہر بادشاہ نے آپ پر لطف و کرم کی نظر رکھی۔ شاہی دربار میں آپ کی ہمیشہ کافی عزت رہی۔ حضرت محبوب الٰہیؒ کی وفات کے وقت آپ دہلی میں نہیں تھے۔ اس وقت آپ سلطان غیاث الدین تغلق کے ساتھ لکھنوتی میں تھے۔ وفات کی خبر سن کر دہلی آئے۔ اپنے پیرو مرشد کے مزارِپُر انوار پر حاضر ہوئے۔ نوکری چھوڑ دی جو کچھ پاس تھا فقراء اور مساکین کو تقسیم کر دیا۔ سیاہ ماتمی لباس پہن کر مزار پر رہنے لگے۔ چھ مہینے رنج و غم میں گزارے اور آخر کار 18شوال 725ھ کو رحمت حق میں پیوست ہوئے۔ آپ کا مزار محبوب الٰہیؒ کے مزار کے پائینتی حجرہ قدیم خواجہ حسن نظامی کے سامنے ہے۔ حضرت محبوب الٰہیؒ کو آپ سے انتہائی محبت تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: خسرو ا میں سب سے تنگ آتا ہوں، مگر تجھ سے تنگ نہیں آتا ۔‘‘حضرت نظام الدینؒ کی نظر میں خسرو کی اتنی قدر منزلت تھی کہ جو بات آپ کے سامنے اور لوگ نہ کر سکتے، خسرو کر سکتے تھے اور اس لیے لوگ خسرو کے ذریعے ہی اکثر آپ سے عرض معروض کیا کرتے تھے، خسرو کی گوناگوں صفات کا آپ سے بڑھ کر اور کون قدر دان ہوسکتا تھا، جب خسرو نے اپنا تذکرہ، جو ’افضل الفوائد‘ کے نام سے مشہور ہے، لکھنا شروع کیا تو اس کے چند اوراق آپ کے ملاحظہ کے لیے پیش کئے۔ آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ ’’نیکو نوشتہ و نیکو نام کردہ‘‘ (یعنی تو نے خوب لکھا اور نام بھی اچھا رکھا ہے) آپ نے اس مسودے کو جگہ جگہ اپنے ہاتھ سے درست بھی کیا اور پھر حاضرین سے کہنے لگے کہ خسرو کے لیے واقعی یہ بات قابل فخر ہے کہ اس نے اتنی باتیں یاد رکھیں اور لکھیں، حالانکہ وہ ہر وقت سر سے پاؤں تک خیالات کے سمندر میں غرق رہتا ہے لیکن خدا نے خسرو کے تمام اعضا کو علم اوردانش سے خمیر کیا ہے کیونکہ وہ دن رات خیالات کے بحر میں شناوری کرتا ہے اور ہزاروں موتی نکال کر لاتا ہے۔ یہ سن کر خسرو تعظیم بجالائے اور کہنے لگے کہ ’’یہ سب خیالات جو میرے دماغ میں آتے ہیں، آپ ہی کی برکت سے ہیں، اس لیے کہ آپ ہی نے اپنی بابرکت تلقین سے میری تربیت کی ہے۔ خسرو نے افضل الفوائد کے نام سے حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے ملفوظات کو جمع کرنا شروع کیا۔ خسرو کو یہ خیال غالباً خواجہ حسن کی اسی نوعیت کی کتاب فواد الفوائد کو دیکھ کر پیدا ہوا۔ خسر و کی تصنیف اس لحاظ سے قابل قدر ہے کہ یہ ایک نذرانۂ عقیدت ہے جسے شرف قبولیت حاصل ہوا ۔3 ؎ خسرو کی اعلیٰ تصانیف میں اُن کے پانچوں دیوان، خمسہ، تاریخی مثنویاں، غزلیات ہندی کلام وغیرہ اور نثر میں اعجاز خسروی، خزائن الفتوح اور افضل الفوائد اہم ہیں۔حضرت امیر خسرو ہندستانی علم و ادب کی ایسی مایہ ناز شخصیت ہیں کہ ان جیسی ہمہ گیریت کسی اورشاعر یا ادیب میں نہیںپائی جاتی۔ ہندوستان ہی پر کیا منحصر ہے ساری دنیا کے ادب میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک شخص میں بیک وقت اتنے کمالات اکٹھے ہوگئے ہوں۔ خسرو نے سات بادشاہوں کے دور دیکھے اور اس زمانے کے سیاسی، معاشرتی اور تمدنی اُتار چڑھاؤ کا گہری نظروں سے مشاہدہ کیا۔ شاہی درباروں سے وابستگی کے باوجود حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی بارگاہ میں حاضری دینے میں کبھی ان سے کوتاہی کا ارتکاب نہیں ہوا۔ خسرو دہلوی نہ صرف بادشاہان وقت کے منظور نظر تھے بلکہ اپنے مرشد کے ایسے چہیتے مریدوں میں سے تھے کہ حضرت خواجہ نظام الدینؒ کے دوسرے حاضر باش مریدوں کو ان کی مقبولیت پر رشک آتا تھا۔ فارسی شاعری میں ان کا لوہا ایران کے ہم عصر شعراء نے مانا ہے اور طوطیٔ ہند کے خطاب سے ان کو موسوم کیا ہے۔ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ سے وابستہ ہونے کے بعد امیر خسرو نے بڑے مجاہدے اور ریاضتیں کیں اورچالیس برس تک مسلسل روزہ دار رہے۔ وہ پانچ بار خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مقدسہ سے مشرف ہوئے۔ مولانا شبلی کا کہنا ہے کہ امیر خسرو کے اشعار میں جو کیفیت موجود ہے، وہ ان کے صوفیانہ مسلک ہی کا نتیجہ ہے۔ امیر خسرو کا صوفیانہ مسلک خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے رابطے سے حضرت گنج شکرؒ سے فیض حاصل کرتا ہے۔ صوفی اور تصوف کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ فرید الدین گنج شکر ؒ فرماتے ہیں کہ تصوف دل کی صفائی کے ساتھ خدا کی دوستی کا نام ہے اور صوفیاء دنیا اور آخرت میں سوائے اس محبت کے اور کسی چیز پر فخر نہیں کرتے۔’’آج بھی جب مزارات پر محفل سماع برپا ہوتی ہے تو قوال اکثر امیر خسرو کی ہندی نظموں سے شروع کرتے ہیں اور قوالی کو ان کی اس ہندی نظم پر ختم کرتے ہیں جو اصطلاح میں رنگ کہلاتا ہے جیسے : آج رنگ ہے ما ہا رنگ رہے ایسو پیر پایا نظام الدین اولیاء جگ اجیاروں میں تو ایسا رنگ اور نہیں دیکھوری دیس بدیس ڈھونڈ پھری ہوں تو را رنگ من بھایورے خسرو نظام کے بل بل جاؤں موہے سہاگن کینی رے موسے نیناں ملا کے، چہاپ، تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملا کے خسرو کے عارفانہ کلام میں جو سوز و گداز ہے، اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ان کے دور سے لے کر آج تک عرصہ زائد از چھ سو سال گزر چکا ہے مگر ان کا عارفانہ کلام سماع کی محفلوں میں اب بھی سب سے زیادہ مروج اور مقبول ہے۔ ان کا عارفانہ کلام وجدانی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ خسرو کی غزلیات سے اشعار کا نمونہ درج ذیل ہے : نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم بہر سو رقص بسمل بود شب جائیکہ من بودم خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو محمدؐ شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم آفاق ہا را دیدہ ام مہربتاں ورزیدہ ام بسیار خوباں دیدہ ام لاکن تو چیزے دیگری خسرو غریب است و گدا افتادہ در شہر شما باشد کہ از بہر خدا سوئے غریباں بنگری آج سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ علیہ اور امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کو سات سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی ہر ملت و مذہب کے لوگ پروانہ وار ان کی درگاہوں کی طرف چلے آتے ہیں۔ ان کے ہم عصر بادشاہوں کی شان و شوکت خواب و خیال ہوگئی، ان کی سر بفلک عمارتیں کھنڈر بن گئیں، اُن میں سے بعض کے مقابر بھی معلوم نہیں کہاں بنے اور کہاںغائب ہوگئے لیکن حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے چہیتے مرید اور منظور نظر امیر خسرو علیہ الرحمۃ کے مزارات پر اب بھی وہی رونق، وہی چہل پہل اور عقیدت مندوں کا وہی ہجوم اورکثرت ہے جو آج سے کئی سو سال پہلے تھی اور سبز چادروں پر پھولوں کی رنگین پتیاں اور اگر بتیوں کے دھوئیں کی بھینی خوشبو اب بھی اس طرح جنت نگاہ اور فردوس مشام ہے جیسے ان کے انتقال کے چند روز بعد ہوگی۔ ہرگز نمیرد آنکس کہ دلش زندہ شد بعشق (کتاب ’’افضل الفوائد-ملفوظات حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ‘‘ناشر بُک ہوم لاہور)
بشکریہ
Post a Comment
Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.