Tabdeeli ka matlab aur auk dua - by Hassan Nisar - 11 11 13

 
اپنی اجتماعی حالت پررحم آرہا ہے اور غصہ بھی۔ یہ کس جرم یا گناہ کی سزا ہے یا کسی کی بددعا کہ ہم کسی بات پر متفق ہی نہیں ہوتے۔ انتشار و ابتری کی انتہا دیکھئے کہ گھر میں آگ لگی ہے چاروں طرف سے شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور گھر کے بڑوں میں بحث جاری ہے کہ آگ لگی کیسے؟ یہی طے نہیں ہورہا کہ اس پھیلتی ہوئی آگ کو پانی سے بجھانا ہے، ریت سے بجھانا ہے، پھونکوں سے بجھانا ہے، جلتے گھر کے کچھ بڑوں بزرگوں کا خیال ہے کہ اس آگ کو پٹرول سے بجھایا جائے۔ منتشر ترین خاندان بھی بڑی افتاد پڑنے پر متحد ہو جاتا ہے لیکن ہم خدا جانے کس کلر اٹھی مٹی سے بنے ہیں کہ یکجا اور یکسو ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
’’موضوع‘‘ ایک ہے لیکن جتنے منہ اتنی باتیں۔ کسی کا رخ مشرق، کسی کا مغرب، کسی کا جنوب اور کسی کا شمال کی طرف اور ملک کا حال بد سے بدتر ....... خدا کا خوف کرو اور اس ڈولتی ڈگمگاتی کشتی کا سوچو جس میں تم نے ادھم مچا رکھا ہے۔ ایسا تو چنڈو خانے میں چنڈال چوکڑی بھی نہیں کرتی جیسے یہاں ہورہا ہے۔
ایک اللہ، ایک رسولؐ ایک کعبہ ایک کتاب ایک ملک لیکن ’’ایکا‘‘ کہیں موجود نہیں۔ منور حسن صاحب فرماتے ہیں حکیم اللہ محسود اسلام دشمنوں کے خلاف لڑتا شہید ہوا، الطاف حسین کہتے ہیں امیر جماعت کا بیان مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے اور کیا مسجدوں میں مسلمانوں کو مارنے والوں کو شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کو شہید کہنا ملک سے غداری کے مترادف ہے، سمیع الحق کا فرمان ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حکیم اللہ ہلاک ہوا ہے یا شہید؟ بہت سے لوگوں کی خاموشیاں بول رہی ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ابھی تو میجر جنرل ثناء اللہ نیازی شہید کا کفن بھی میلا نہیں ہوا بقول شاہی سید حکومت محسود کو ہیرو نہ بنائے۔ کچھ ایسے نابغے بھی ہیں جو امریکہ کی آمد تو روک نہ سکے لیکن ’’رفت‘‘ میں رخنہ اندازی کو کارنامہ سمجھ رہے ہیں لیکن شاید یہی کچھ ہمارا مقدر ہے کہ جو لوگ کالا باغ ڈیم سے لیکرعید کے چاند اور جمعہ یا اتوار کی چھٹی پر متفق نہ ہوسکے وہ کسی اور معاملہ پر متحد کیسے ہوں گے۔کہیں انائوں کا وبال ہے تو کہیں قبائوں کا سوال۔ پاکستان کے ساتھ وہ سلوک ہورہا ہے جو کٹی پتنگ کے ساتھ علاقہ کے آوارہ لونڈے کیا کرتے ہیں اور ہاں مولانا فضل الرحمن نے تو کمال کردیا۔ امریکہ کتا بھی مارے تو وہ اسے ’’شہید‘‘ کہیں گے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی سیاسی مہم جوئوں کو نہ عقل آئی نہ ان کے سفاک سینوں میں ٹھنڈ پڑی اور یہ ہوتا بھی کیسے کیونکہ ان کے سینوں میں دل نہیں تجوریاں ہیں۔ المیہ یہ نہیں کہ قوم کو مسائل کا سامنا ہے، عظیم المیہ ان نام نہاد لیڈروں کے رویے ہیں ورنہ پرابلم تو کوئی پرابلم ہی نہیں بلکہ "HENRY J. KAISER" تو یہاں تک گیا کہ "PROBLEMS ARE ONLY OPPORTUNITTIES IN WORK CLOTHES"
لیکن اس کیلئے وژن چاہئے اور وژن کیا ہے؟
"VISION IS THE ART OF SEEING THINGS INVISIBLE"
اب ذرا ان کی شکلوں اور حلیوں پر غور کریں۔ جن قیادتوں کی ساری انرجی، سارا ’’وژن‘‘ سوٹوں، بوٹوں اور ٹائیوں کے انتخاب پر خرچ ہو جاتا ہو کیا وہ ملک کو عذاب سے نکالیں گے؟ اپنے موجودہ وزیراعظم اور گزشتہ دو وزراء اعظم یعنی راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کو تصور میں لائیں اور غور کریں کہ منصب سنبھالتے ہی انہیں ’’وارڈروب‘‘ کس بری طرح لڑنی شروع ہو جاتی ہے، ان کے حلیئے کیسے تبدیل ہوتے ہیں۔ جون جولائی میں کسی تندور کا افتتاح بھی کرنا ہو تو یہ سوٹ چڑھا کر جائیں گے۔ اوسط درجہ سے بھی کم علم و عقل کے یہ لوگ جن کی زندگیا ں ’’کیا کھانا ہے؟ کیا پہننا ہے؟‘‘ سے آگے نہیں بڑھتیں، ہم نے اپنی قسمتوں کے فیصلے ان پر چھوڑ رکھے ہیں تو پھر ایسا ہی ہوگا۔
لیڈر کیلئے ضروری ہے کہ وہ بہت اچھی طرح جانتا ہو کہ اس نے جانا کہاں ہے اور جہاں جانا ہے وہاں لوگوں کو کیسے ساتھ لے جانا ہے، یہ پٹوار تھانیدار مارکہ کون سا معرکہ مار سکتے ہیں؟ یہ اے پی سی ٹائپ لیڈر شپ کے بس کا روگ نہیں۔
"A REAL LEADER FACES THE MUSIC WHEN HE DOES NOT LIKE THE TUNE"
اور اب ذرا ان لوگوں کی ہیئت، ساخت، بنت اور تربیت پر غور کریں۔ یہ تو ورکر لیول کے لوگ نہیں جو ’’لیڈر‘‘ بن بیٹھے، لوگوں نے قبول بھی کرلیا۔ ان میں سے کسی کو قسم دیکر پوچھو کہ بھائی! آخری کتاب کون سی تھی جو تم نے پڑھی؟ پال پار کر کہتا ہے۔
’’لیڈرز سوچتے ہیں۔ وہ اسلئے سوچتے ہیں کیونکہ وہ لیڈرز ہوتے ہیں اور وہ لیڈرز بھی اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں‘‘۔
اپنے لیڈرز کو DEFINE کرنا ہو تو میں کہوں گا .......
’’لیڈرز لوٹتے ہیں۔ وہ اس لئے لوٹتے ہیں کیونکہ وہ لیڈرز ہوتے ہیں اور وہ لیڈرز ہی اسی لئے ہوتے ہیں کیونکہ وہ لوٹتے ہیں‘‘
قوم کو ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے نے بہت فیسی نیٹ کیا لیکن نعرے کی سمجھ نہیں آئی۔ ’’تبدیلی‘‘ کا مطلب ہے ...... ’’خود کو تبدیل کرو‘‘ ..... اور خود کو تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ اپنی پسند، ناپسند اور ترجیحات کو تبدیل کرو یعنی اپنے وہ لیڈر تبدیل کرو جن کے وجود ہی نحوست کی علامت ہیں۔
آقا کا حکم ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا ...... حکم عدولی کرو گے تو اسی طرح بے موت مرو گے۔ جسے حکیم الامت کہتے ہو وہ بھی یہی پکار رہا ہے کہ خدا کبھی ان لوگوں کی حالت میں تبدیلی نہیں لاتا جو خود کی تبدیلی کیلئے تیار نہ ہوں۔
اے رب ذوالجلال! میں اس ٹوٹے پھوٹے ملک اور اس کے لٹے پٹے عوام کیلئے تجھ سے کسی مصطفےٰ کمال کی بھیک مانگتا ہوں !!! ورنہ احمقوں کو لڑایا جاتا رہے گا اور یہ احمق آپس میں یونہی لڑتے مرتے رہیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post