MrJazsohanisharma

#Chitral by-elections and your vote چترال کے ضمنی انتخابات: ووٹ ایک قومی فریضہ نہ کہ ضمیر کا سودا ہے: تحریر ابولحسنین





Text version:

چترال کے ضمنی انتخابات: ووٹ ایک قومی فریضہ نہ کہ ضمیر کا سودا ہے: تحریر ابولحسنین

اگر دیکھا جائے تو چترال میں بظاہر کسی بھی لیڈر نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے آنکھیں بند کرکے اسے ووٹ دیا جائے۔ ایک چھوٹی سی مثال آپ کے سامنے رکھے دیتا ہوں۔۔۔

14 اپریل 2010 کو شوگرام گول میں بد ترین سیلاب آیا تھا، جائیداد واملاک کے نقصاد کے علاوہ اس کا سب سے بڑا نقصان انفراکچر کا تھا۔۔۔ سیلاب نے شوگرام کے سامنے مین شاہراہ مستوج کو بہا کر لے گیا تھا۔ حالانکہ یہ زیادہ بڑی جگہ نہیں تھی مگر پہاڑکے اوپر سے کوئی 200 میٹر کا راستہ تھا۔ ۔۔اور عارضی گزرگاہ کے طور پر دریا کے کنارے سے ایک مشکل ترین راستہ بنایا گیا۔۔۔ جس سے آدھا کلومیٹر کا فاصلہ 10 کلومیٹر کا ہوگیا تھا۔۔۔ عوامی نمائندوں کی انہتائی غفلت اس وقت دیکھنے میں آئی جب عوام کے بھر پور احتجاج کے باجود بھی ایک سال تک اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔۔۔ اس وقت چترال کے ایم این اے شہزادہ محی الدین صاحب اور ایم پی اے غلام محمد تھے، جبکہ سلیم خان بھی اس وقت کے وزیر بہبودَ آبادی تھے۔

اس دشوار گزار عارضی راستے کی تعمیر کے لئے کروڑوں روپے کا فنڈ ضرور آیا تاہم گیا کہاں کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس راستے پر کوئی جانی حادثہ پیش نہیں آیا تاہم چترال کے دکانداروں کے لئے سامان اور تیل سپلائی کرنے والے ٹرکس اس راستے میں پورے پورے دن پھنس کر رہ جاتے تھے جس کے باعث آمدورفت رک جاتی تھی۔۔۔ نہ صرف یہ بلکہ راستہ اتنا نا ہموار تھا کہ جتنی دیر میں ریشن سے چرون پہنچنے تھے اب اتنا وقت صرف اسی 400 میٹرکےراستے میں گزرجاتا تھا۔۔۔

رہنمائوں کی انتہائی غفلت اور عوامی مسائل سے نظریں چرانے والے رویے سے تنگ آگر ریشن، زیئت، شوگرام، کوراغ اور چرون کے عوام، بلکہ چترال بالا کو جانے والے مسافر بھی گاڑیاں روک کر اپنی مدد آپ کے تحت اس سڑک پر لگ گئے۔ اور صرف 3 یا 5 دنوں کی محنت سے پرانا راستہ بحال کردیا۔۔۔۔ اس دوران کریڈت لینے کے لئے وہاں آنے والے عوامی نمائندوں کو ذلیل کرکے واپس بھیج دیا۔۔۔

اس چھوٹی سے نیوز اسٹوری کو آپ سے شیئر کرنے کا اولین مقصد صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ ووٹ دینے سے پہلے رنگ ونسل اور فرقے سے مبرا ہوکر اپنے پورے علاقے کی مفاد کو مدنظر رکھیں نہ کہ انفرادی یا ذاتی فائدے کو۔ کیونکہ انتخابات کے مثبت و منفی اثرات آنے والے 5 سالوں تک آپ پر اور آپ کی نسل کی پوری زندگی پر پڑتے ہیں۔ کیونکہ یاد رکھیں رہنما وہ نہیں جو آپ کو ایک وقت کی روٹی کھلائے بلکہ وہ ہے جو آپ کے مستقبل کو منور کردے۔ ضمیر کا سودا کرکے ایک وقت کی روٹی تو کھاسکتے ہو مگر یہ سوچیں کہ آنے والے پانچ سال کیا کیا کھانے پڑیں گے۔

ووٹ قومی فریضہ سمجھ کر دیں۔۔ ضمیر کا سودا مت کریں۔ شکریہ ۔

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post