جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ارشدسلہری
پاکستان کا شمالی علاقہ جات جیسے پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور کے دوران 2009میں صوبائی حیثیت دیکر خطہ کا تاریخی نام گلگت بلتستان بحال کیا گیا ۔آئینی حقوق کے حوالے سے گلگت بلتستان کا پس منظر دیکھا جائے تو یکم نومبر 1948 کا دن ہی ایک ایسی رومانوی یاد باقی ہے جس دن گلگت بلتستان کے غیور عوام نے ڈوگرہ راج کے مقر ر کردہ گورنر گھنسارا سنگھ کے خلاف اعلان بغاوت کیا اور فتحیاب ہوکر آزاد ریاست ؛؛ اسلامی جمہوریہ گلگت ؛؛ کی بنیاد رکھی ( گلگت بلتستان کے عوام آج بھی اپنا یوم آزادی یکم نومبر کو مناتے ہیں ) مگر 16نومبر 1948کو جمہوریہ ختم کرکے پاکستان کی جانب سے پولیٹکل ایجنٹ سردار عالم نامی شخص کو مختار کل بنادیا گیا بعدازاں 28 اپریل 1949 کو حکومت پاکستان کے وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی ،مسلم کانفرنس کے غلام عباس اور آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم کے مابین کراچی میں ایک معاہدہ ہوا جسے گلگت بلتستان کے عوام بدنام زمانہ معاہدہ کراچی کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔معاہدے کے مطابق گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کردیا گیا ۔ یکم نومبر سے 16 نومبر تک کے 16دنوں کے علاوہ ڈوگرہ راج 1911 سے لیکر 2014 تک خطہ کے عوام محرومیوں اور محکومی کا شکار ہیں ۔ایف سی آر ، ایل ایف او سمیت کئی ترمیمی پیکجزکے نام پر گلگت بلتستان کے عوام کو لالی پاپ دئیے جاتے رہے ہیں ۔ 2009میں دی جانیوالی صوبائی حیثیت کے باوجود گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور خطہ کے بے اختیار حکمران پاکستان کی ایک وازرت کے کلرک کے سامنے بے بس ہیں ۔ آئینی حقوق سمیت 20 لاکھ سے زائد آبادی بنیادی انسانی حقوق سے سے نہ صرف محروم ہے بلکہ ریاستی اور غیر ریاستی سفاکانہ جبر کا شکار ہے بالعموم سیاسی و سماجی طبقات اور بالخصوص ترقی پسند رجحان رکھنے والی پرتیں زیادہ نشانے پر ہیں جنہیں ناانصافی ، حقوق کی آواز اٹھانے کی پاداش میں انسداد دہشت گردی جیسے کالے قوانین کے تحت پابند سلاسل کردیا جاتا ہے ۔ آئینی حقوق کی بات ہو یا عطا آباد جھیل کی بربادیوں سے متاثرین کی عدم بحالی اور داد رسی پر صدائے احتجاج ریاست فوری حرکت میں آتی ہے۔
یہ دستور زباں بند ی کیسا ہے تیری محفل میں۔۔کہ بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری ۔
پرامن شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،قتل و غارت گری کی جاتی ہے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کرکے ریاستی خوف مسلط کیا جاتاہے کہ ہر قسم کی بلند ہوتی ہوئی آواز کو دبا دیا جائے جبکہ اصل دہشت گرد اور دہشت گردوں کے اتحادی کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں ۔ ریاستی ادارے اور فورسز گلیوں میں بنے مورچے اور اسلحہ کے انبار کو تحفظ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ فرقہ ورانہ ، دہشت گردی کے مرتکب کسی ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی سزا دی گئی ہے ۔کون نہیں جانتا گلگت کی گلیاں آئے روز کون لہو رنگ کرتے ہیں لیکن ان سے ریاستی کا کارندے باہم شیرو شکر ہیں جبکہ دوسری جانب عوامی حقوق اور عطا آباد جھیل سے متاثرہ 200 سے زائد خاندانوں کی بحالی کے لئے بولنے پر عوامی ورکرز پارٹی کے صوبائی رہنما بابا جان سمیت 20 ترقی پسند کارکناں پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور فوری ©سزا سنا کر جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے ۔ باباجان کا جرم یہ تھا کہ وہ 2010میں آنیوالے سیلاب اور عطاآباد جھیل کے متاثرین کی بحالی کی تحریک کی قیادت کر تے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ متاثرین کو وعدے کے مطابق امدادی پیکج دیا جائے ۔ متاثرین کے ایک پرامن مظاہرے پر پولیس کی فائرنگ سے دو مظاہرین کو قتل کر دیا گیا اور سیکڑوں زخمی کردئیے گئے ہیں اور الٹا بابا جان سمیت بیسیوں کارکنان پر دہشت گردی کے مقدمات درج کردئیے گئے جبکہ مذکورہ مظاہرے میں باباجان شریک ہی نہیں تھے ۔ باباجان ناکردہ گناہ پر پابند سلاسل رہے ، رہائی ملی تو ایک پھر باباجان عوامی حقوق کی آواز بن کر میدان عمل تھے جو ریاست کو براشت نہ تھا دوبارہ بابا جان کو ایک بے بنیاد مقدمے میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا اور 25 سمبر 2014 کو انہیں عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے اور عطا آباد جھیل کے متاثرین کو معاضوں کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے کی عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے ۔ بابا جان پھر ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں بقول ساغر صدیقی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے ۔۔جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں ترقی پسند طبقات سراپا احتجاج ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ڈیمو کرٹیک فورسز نے فری باباجان کی مہم شروع کی ہے ۔ فری باباجان مہم کے لئے نومبر کے آخری ہفتے میں ملک گیر احتجاج کیا جائے گا اور احتجاجی کیمپ لگائے جائیں۔کئی بین الاقوامی فورم نے بھی فری بابا جان مہم سے اظہار یکجہتی کیا ہے ۔ راقم نے ذاتی طور پر اپنے انٹرنیشنل انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافی دوستوں سے بات کی ہے ۔ایمنسٹی انٹر نیشنل ،
ہیومن رائٹس واچ جیسے اداروں میں دوستوں نے باباجان کے کیس کو اجاگر کرنے کی ےقین دہانی کرائی ہے ۔ ایمنسٹی پاکستان کی جانب سے فری بابا جان کمپئین کا آغاز کردیا گیا ہے
گزشتہ روز سول سوسائٹی ، سیاسی کارکنان ، ٹریڈ یونینز کے نمائندگان اور طالب علموں کا اجلاس انسانی حقوق کی معروف رہنما ڈاکٹر فرزانہ باری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں فری بابا جان اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 2012کے ناجائز استعما ل کے حوالے سے سمینار کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس موقع پر حکومت پاکستان ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے مطالبہ کیا گیا کہ بابا جان سمیت تمام سیاسی کارکنان سے فوری مقدمات ختم کرکے انہیں رہا کیا جائے ۔
یہ امر انتہائی افسوناک ہے کہ انسداد گردی ایکٹ کا استعمال سیاسی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے اور اب مذکورہ ایکٹ کا نشانہ صرف ترقی پسند سیاسی کارکنان ہی بنے ہیں ، فیصل آباد کے لومز ورکرز فضل الہی ، اکبر کمبوہ ، بابر شفیق رندھاوہ اور رانا ریاض سمیت 9 ورکر وں کو معاوضوں میں اضافے کا مطالبہ کرنے پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے اسی طرح انجمن مزارعین اوکاڑہ کے بیس کارکناں جو زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگ رہے تھے ، پی ٹی سی ایل کے ٹریڈیونین لیڈر ملک مقبول ،امداد الحسن اور لطف اللہ سمیت 63 کارکنان اور ٹریڈ یونین لیڈ ر غلام دستگیر محبوب نجکاری اور ملازمین کی جبری برطرفیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ان پر دہشت گردی ایکٹ کے مقدمات بنادئیے گئے ہیں ۔ حکومت اس امر کا فوری نوٹس لیکر دہشت گردی ایکٹ کے ناجائز استعمال کو روکے اور گرفتار ترقی پسند کارکنان کو فوری رہا کرے وگرنہ حکومت کو ایک بڑی احتجاجی تحریک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
(ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)
Post a Comment
Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.