ہم جنس پرستوں کی شادیاں،امریکیوں کیلئے آزمائش



مصدق گھمن: بشکریہ اسلام ٹائمز

آج کل امریکہ میں اس فیصلے کا بڑا شور ہے۔کیسی عجیب دو رخی ہے۔ایک ''حق'' کو درست قرار دیکر دوسرے ''حق'' کی نفی کی جا رہی ہے۔انسان جب اپنے بنائے ہوئے حقوق کے معیار کو ہی حرف آخر سمجھنے لگے گا،تو ایسی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوتی رہے گی۔ 

ہم جنس مرد و خواتین کی شادی کو قانونی قرار دیتے ہوئے امریکی فیڈرل کورٹ کے جج نے جو موقف اپنایا ہے،وہ ایک طرف تو امریکہ کے آئین میں دئیے گئے مساوات کے حق کو اپنی بنیاد بناتا ہے،لیکن دوسری طرف ریاست کی اکثریتی عوام کو دئیے گئے فیصلے،جو ریاست کیلی فورنیا میں '' پروپوزیشن8 '' کی صورت میں سامنے آیا ہے کو مسترد کرتے ہوئے مغربی جمہوریت کے تحت عوام کو حاصل قانون سازی کے ''مطلق اختیار'' کی نفی کر رہا ہے۔ 

پہلے حقائق پر ایک نظر ڈال لیجئے،تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔امریکہ میں یورپی ممالک کی طرح ہم جنس پرستی ایک بیماری کی صورت میں کب سے پھیل رہی تھی،مگر اب اسکی سنگین صورت اسطرح پیدا ہو گئی ہے کہ ہم جنس جوڑے نہ صرف آپس میں شادیاں کر رہے ہیں،بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ انکی شادی کو مساوی قانونی حیثیت دی جائے۔انکا مطالبہ مغرب کے طے کردہ انسانی حقوق کے اس معیار پر ہے،جسکے تحت ایک فرد کو اپنی نجی زندگی کے معاملات طے کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔جس پر قانونی و اخلاقی اعتبار سے مذہب یا ریاست کا کوئی '' چیک'' نہیں ہے۔مزید برآں مغرب اس آزادی کے تصور میں تمام مرد و زن کو یکساں قرار دیتا ہے۔ 

صاف ظاہر ہے،جب انسانی حقوق کے معیار اس طرح طے کئے جائینگے،تو اس قسم کے مطالبے بھی سر اٹھائینگے۔ہم جنس پرستوں کی طرف سے انسانیت مخالف اس مطالبے نے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی بے بسی اور بے کسی بھی آشکار کر دی ہے،چونکہ انسان نے اپنی دانست میں مساوات اور آزادی کے جو معیار طے کئے ہیں،اس کی بنیاد پر ایسے شرمناک اور واحیات مطالبات کو ٹھکرانا اتنا آسان نہیں ہے۔امریکی فیڈرل کورٹ جج کے حالیہ فیصلے کی وجہ بھی انسانی حقوق کے یہ معیار ہی تو ہیں۔ امریکی جج نے اپنے فیصلے میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کو امریکی آئین کے تحت دئیے جانے والے ''مساوی تحفظ'' سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ 

یہ اس معاملے کا ایک رخ ہے،جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکی فیڈرل کورٹ کے جج نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو مساوی قانونی درجہ دیکر کیلی فورنیا کی 52 فیصد عوام کی خواہشات کے برخلاف فیصلہ سنایا ہے۔2008ء میں کیلی فورنیا کی 52 فیصد عوام نے ہم جنس جوڑوں کی شادی کو '' پروپوزیشن8 '' کا قانون منظور کر کے مسترد کر دیا تھا۔کیلی فورنیا میں جب 52 فیصد ووٹرز نے ہم جنس جوڑوں کی شادی کو روایتی شادی کا قانونی سٹیٹس دینے سے انکار کر دیا،تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا،مگر اس وقت عدالت نے عوام کی رائے کے خلاف جانے سے گریز کیا۔بعد ازاں اس پابندی کو امریکی فیڈرل کورٹ میں چیلنج کیا گیا،جس نے اپنے فیصلے میں ہم جنس جوڑوں سے روا رکھے جانے والے اس امتیاز کو ختم کر دیا ہے۔

مغربی جمہوریت کے تحت سمجھے جانے والے عوام کے مطلق اختیار کو جج نے اس بنیاد پر رد کیا ہے کہ ''بنیادی حقوق پر ووٹنگ نہیں کروائی جا سکتی''،مزید برآں جج نے اس آئیڈیا کو بھی مسترد کر دیا کہ کسی امتیازی سلوک کی اس بنا پر اجازت دی جا سکتی ہے کہ اسے ووٹرز کی اکثریت نے منظور کیا ہوا ہے۔جج واکر کی دی ہوئی رولنگ کو اگر اصولی بنیادوں پر پرکھا جائے تو اسے ایک اچھی رولنگ قرار دیا جا سکتا ہے،جس میں ایک طرف امتیازی سلوک کی کسی بھی حالت میں اجازت کی نفی ہے،تو دوسری طرف انسانوں کے بنیادی حقوق پر ووٹنگ کو بھی مسترد کیا گیا ہے۔لیکن یہاں پر دو سوالات جنم لیتے ہیں۔اول،مغربی جمہوریت عوام کو قانون سازی کا جو اختیار دیتی ہے کیا وہ '' مطلق اختیار'' نہیں ہے؟ 

امریکی جج کے فیصلے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی قانون سازی کا اختیار بعض حدود سے ماوراء نہیں ہے۔دوسرا سوال اسی سوال کے جواب کے بعد پیدا ہوتا ہے۔اگر قانون سازی کے اختیار کو عوام کا ''مطلق اختیار'' تسلیم نہیں کیا جاتا،تو پھر انسان کے اپنے بنائے ہوئے قوانین کو بدلنے کا اختیار آخر کس کے پاس ہے؟ مساوات اور آزادی کے جو تصورات انسانوں نے اپنے تئیں کھڑے کئے ہیں۔انکے نقصانات اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔اب انسانوں کا ایک اکثریتی گروہ (کیلی فورنیا کے 52 فیصد عوام) ان تصورات سے جنم لینے والے نقصانات سے بچنا چاہتا ہے،مگر اسکی کوشش کو اسکے اپنے ہی کھڑے کئے گئے انسانی حقوق کے معیاروں سے متصادم قرار دیکر ناکام بنا دیا گیا ہے۔کتنی بے بسی ہے؟۔

یہ صورتحال انسان کے بنائے ہوئے قوانین پر خدائی قوانین کی برتری کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔خدا کے بنائے ہوئے قوانین اپنی ہمہ گیریت اور جامعیت کی وجہ سے ہر دور اور ہر وقت کیلئے ہیں،جسکو اپنا کر انسانیت نہ صرف مذکورہ بالا شرمناک صورتحال سے بچ سکتی ہے،بلکہ تنزلی کی جانب تیزی سے بڑھتے اپنے سفر کو بھی روک سکتی ہے۔مسلمان معاشروں میں جب کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہوتا ہے،جو باعث نزاع بن جائے،تو ہم اسکا حل اللہ کے بنائے ہوئے قوانین میں تلاش کرتے ہیں،اور وہیں سے حتمی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ذرا مغربی معاشرے کا تصور کیجئے کہ وہاں ایک انتہائی حساس معاشرتی مسئلہ درپیش ہے،رائے عام دو واضح حصوں میں بٹی ہوئی ہے،لیکن انکے پاس کوئی واضح رہنمائی موجود نہیں ہے۔ 

ایک فورم ''عدالت'' کی صورت میں ہے،جہاں پر میسر دستاویزات اور کسی وکیل کے زیادہ بہتر دلائل کی صورت میں ''فیصلے'' تو ہو سکتے ہیں لیکن ''انصاف'' کا اطمینان بہر حال نہیں ہو سکتا۔ 

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post