MrJazsohanisharma

کیا ہم قرآن و حدیث سے بڑھ کر فیصلہ ساز ہیں؟ چترال میں پیش آنے والا واقعہ ہمیں کیا سبق دیتا ہے۔

کیا ہم قرآن و حدیث سے بڑھ کر فیصلہ ساز ہیں؟  چترال میں پیش آنے والا واقعہ ہمیں کیا سبق دیتا ہے۔

قرآن کے سورہ المائدہ کی آیت نمبر 38 میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔

مسلمانو! مرد چوری کرے یا عورت چوری کرے تو ان دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ حد اللہ کی جانب سے مقرر ہے اور اللہ زبردست واقف ہے تو جو اپنے قصور کے بعد توبہ کر لے اور اپنے آپ کو سنوار لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔




گزشتہ دنوں ایک معزز شخص معاشرے کی اصلاح کی نیت سے ایک چور کو معمولی سزا دی۔ تاکہ معاشرہ اور معاشرے میں موجود دیگر اوباش اور مائل بہ برائی بچے اس سے سبق حاصل کریں اور خود ملزم  اس برائی سے پلٹے اور ایک بہترین معاشرتی مخلوق کے طور پر رہنا شروع کرے اور چوری اور حرام کی کمائی چھوڑ دے اور اس سزا کے بعد اپنا اصلاح کرے۔ 
معاشرے کے لئے ایسے افراد نہ صرف درد سر ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بگاڑ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بچے برائی کی جانب راعب ہوجاتے ہیں اسی طرح اصلاح کی صورت میں اچھے لوگوں کی صحبت اور ترغیب کی بدولت نئی نسل اچھی بھی بن جاتی ہے۔ 

اوپر والی قرآن کی آیت کو اگر سامنے رکھیں تو بحیثیت مسلمان ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ چور کی حمایت اور اصلاح کرنے والے شخص کی برائی کرکے کیا ہم اللہ کے قانون سے بغاوت نہیں کر رہے ۔ اگر اللہ نے چور کی اتنی بڑی  سزا  ہاتھ کٹنا رکھی ہے تو چوری کوئی معمولی جرم ہے۔؟ یا صوبیدار صاحب نے کوئی بڑا جرم کیا۔ 

بجائے چور کو کھٹرے میں لاکر اس کے خلاف ثبوت جمع کرنے کے مذکورہ شخص کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا اور اس کو معاشرے اور سوشل میڈیا اور میڈیا کے سامنے اس طرح تذلیل کرنے کی کیا قانون میں اجازت ہے۔ اگر ہے تو کیا ہم اسلام اور قرآن سے رو گردانی نہیں کر رہے۔ میرے قانون کے رکھوالوں کو چاہئے تھا کہ اس شخص کو گرفتار اگر کرنا اتنا ضروری تھا تو معاشرے کے سامنے ذلیل کرنا تو ضروری نہیں تھا نا۔ 

اللہ کی نظر میں چور زیادہ ذلیل ہے نہ کہ اصلاح کی نیت سے سزا دینے والا شخص۔ 

گزشتہ سال فروری کے ہی مہینے میں چترال ریشن میں دکانوں میں چوریوں کے پے در پے واقعات  ہوئے۔  دینا نامی ایک دکاندارجو ریشن راغین میں موبائل کی دکان چلاتا ہے۔  وقوعہ والے دن  شہر سے چند قیمتی موبائل فروخت کے لئے لائے۔ جن کو وہ دکان میں رکھ کر چلے گئے اور اسی رات چور نے اپنا کام کردیا اور دکان سے قیمتی موبائل ، سم اور لوڈ کرنے والے کارڈز لے اڑا۔ جس کی رپورٹ دکانداروں نے درج کرائی۔ بجائے چور کو تلاش کرنے کے راغین کے معززین کے بچوں کو تفتیش کے لئے تھانے کے چکر لگوائے گئے۔  بعد ازاں چور موبائلوں اور دیگر مسروقہ سامان کے ساتھ پکڑا گیا۔ لیکن کوئی سزا نہیں ہوئی۔ ایک ماہ  قید تک کی بھی سزا نہیں ہوئی۔ جسے متاثرین کے ساتھ صلح کروا کر چھوڑ دیا گیا۔  یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے کئی ایک واقعات ہوئے ہیں۔ جرم ثابت ہونے کے باوجود مجرم باعزت بری کردیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ قانون اور نظام انصاف سے مایوس ہوچکے ہیں اور بعض اوقات قانون کو اپنے ہاتھ لینا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ اور صوبیدار جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

دل کی آواز : افسرخان بیگال

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post