سینٹر فار چائینیز لیگل اسٹڈیز ، لمز یونیورسٹی میں پاک چین تعلقات اور سی پیک کے موضوع پر ورچوئل کانفرنس کا انعقاد ، مقررین کا خطاب

 سینٹر فار چائینیز لیگل اسٹڈیز ، لمز یونیورسٹی میں پاک چین تعلقات اور سی پیک کے موضوع پر ورچوئل کانفرنس کا انعقاد  ،  مقررین کا خطاب 

گوادر پورٹ کا سی پیک پر انحصار ہے، یہ بحیرہ عرب کا  روٹر ڈیم بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید 

لاہور، 23 جولائی، 2021۔ لمز یونیورسٹی کے شیخ احمد حسن اسکول آف لاء (ایس اے ایچ ایس او ایل) کے سینٹر فار چائینیز لیگل اسٹڈیز (سی سی ایل ایس) نے حال ہی میں "سی پیک: پاک چین سیکورٹی و اسٹریٹجک تعاون" کے موضوع پر ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں چیئرمین دفاعی کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سید، ایس اے ایچ ایس او ایل کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر عذیر جے کیانی، اور سی سی ایل ایس کے ڈائریکٹر پروفیسر سکندر اے شاہ نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ممبرز اور لمز کمیونٹی سے وابستہ افراد بھی شریک ہوئے۔ 

پروفیسر عذیر کیانی نے سینیٹر مشاہد حسین سید کا خیرمقدم کیا جو پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کے فروغ اور ایسے وقت میں انکی اہمیت کو نمایاں انداز سے سامنے لائے جب دنیا پالیسی میں غیرمعمولی تبدیلی کا مشاہدہ کررہی ہے۔ پروفیسر سکندر شاہ نے اس پروگرام میں ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے اور سی پیک سے متعلق سیکورٹی چیلنجز اور مواقع پر تبادلہ خیال کیا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے پاک چین تعلقات کا اجمالی جائزہ پیش کیا اور واضح کیا کہ یہ تعلقات صرف سی پیک کے بنیادی پروجیکٹ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے صدر بائیڈن کی کثیر الجہتی طریقہ کار پر بھی گفتگو کی جس کا مقصد دنیا بھر میں اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کنٹرول کرنا ہے۔ انہوں نے امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان چہار فریقی سیکورٹی ڈائیلاگ، جی 7 ممالک کے اجلاس، امریکہ۔ نیٹو اجلاس، اور امریکہ۔ یورپی یونین اجلاس پر اظہار خیال کیا اور ہر اجلاس میں واضح طور پر چین کو عالمی سیکورٹی چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا۔ 

انہوں نے چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ انٹرویو کا بھی حوالہ دیا جس میں اس عزم کا ایک پھر اظہار کیا گیا کہ پاکستان کسی بیرونی دباؤ پر چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی نہیں لائے گا۔ 

انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلاء اور اسکے نتیجے میں تشدد بڑھنے، اور انٹرا افغان ڈائیلاگ میں تعطل پر بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے سی پیک سے متعلق پروجیکٹس پر تفصیل سے روشنی ڈالی جو خطے میں تعاون، تجارت، کامرس اور کنکٹویٹی بڑھانے اور پاکستان کی توجہ جیو پالیٹکس سے جیو اکنامکس کی جانب منتقل کرنے کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ انہوں نے گوادر پورٹ کا بھی حوالہ دیا جس کا انحصار سی پیک پر ہے اور چیف جیوپالیٹیکل انالسٹ رابرٹ کیپلن کے الفاظ میں یہ بندرگاہ بحیرہ عرب کا  روٹر ڈیم بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 

انہوں نے واضح کیا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے کے پروجیکٹس کی تکمیل سے پسماندہ اور سہولیات سے محروم علاقوں جیسے تھر میں تاریخ ساز تبدیلیاں آئیں۔ انہوں نے سی پیک کے دوسرے مرحلے پر بھی اظہار خیال کیا جس میں زراعت، تعلیم، سماجی و معاشی ترقی، اسپیشل اکنامک زونز اور چھوٹے و درمیانی چینی  اداروں کی نقل مکانی پر توجہ دی جائے گی جس سے پاکستان میں معاشی و انسانی ترقی میں مزید اضافہ ہوگا۔ 

انہوں نے پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعاون پر بھی اظہار خیال کیا اور بتایا کہ چین نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں متعدد مسائل سے متعلق پاکستان کی کاوشوں کی پشت پناہی کی۔ انہوں نے پاکستان اور چین کو اپنے حریفوں سے درپیش ہائبرڈ جنگ کے مشترکہ چیلنج پر بھی اظہار خیال کیا جن پر سی پیک سے متعلق غلط فہمیوں کا خاتمہ کرکے قابو پایا جاسکتا ہے۔ 

سینیٹر مشاہد حسین نے اختتام پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین کے اہم کردار کا حوالہ دیا اور پاکستان میں انفراسٹرکچر اور انسانی ترقی میں سی پیک کے غیرمعمولی مواقع کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ چیلنجز کے باوجود پڑوسی ممالک سے بڑھتے تعلقات کے ساتھ ساتھ خطے میں سی پیک کے اعتبار سے پاکستان کی تزویراتی اہمیت مسلمہ ہے۔ 

پروفیسر سکندر شاہ نے کانفرنس کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے سی پیک اور آزمائش کی ہر گھڑی میں ثابت قدم پاک چین تزویراتی تعاون سے متعلق تعلیمی مباحثوں اور اس موضوع پر تعلیمی مواد کی تیاری کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ 

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post