MrJazsohanisharma

پنجاب مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ جلد پورے صوبے میں نافذ کیا جائے گا، عائشہ نواز چوہدری

پنجاب مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ جلد پورے صوبے میں نافذ کیا جائے گا، عائشہ نواز چوہدری



"پنجاب اسمبلی نے 2014 میں مفت اور لازمی تعلیم کا ایکٹ پاس کیا تھا۔ تاہم، اس کی منظوری کو سات سال گزر جانے کے باوجود اس پر عمل درآمد ابھی تک شروع نہیں ہوا۔ تو ایسا قانون پاس کرنے کا کیا فائدہ تھا جس پر حکومت عمل درآمد کا ارادہ  ہی نہیں رکھتی تھی؟" یہ سوال سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹوز (سی۔پی۔ڈی۔آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب مختار احمد علی نے اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے سکول ایجوکیشن، پنجاب کے اراکین کے ساتھ ایک گول میز بحث کے دوران اٹھایا۔

اس پارلیمانی گول میز کا اہتمام سول سوسائٹی کی تنظیموں بشمول سی۔پی۔ڈی۔آئی، پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی۔وائی۔سی۔اے)، اور پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی۔سی۔ای) نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ برایعے پارلیمانی سروسز (پیپس) کے تعاون سے کیا گیا۔

صوبائی قائمہ کمیٹی برائے اسکول ایجوکیشن پنجاب کی چیئرپرسن عائشہ نواز چوہدری نے گول میز کانفرنس کی صدارت کی۔ جناب مختار احمد کے سوال کے جواب میں انہوں نے سول سوسائٹی کے ارکان کو یقین دہانی کروائی کہ سٹینڈنگ کمیٹی صوبائی محکمہ تعلیم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور جلد ہی اس قانون کو نوٹیفائی کر دیا جائے گا۔ "پنجاب فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ کا نوٹیفکیشن اس سٹینڈنگ کمیٹی کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ ہم جلد ہی اس کا مرحلہ وار نفاذ شروع کریں گے، جس کا آغاز پنجاب کے سب سے زیادہ پسماندہ اضلاع سے ہوگا۔"

پبلک فنانس ماہر اور حال ہی میں شائع ہونے والے وائٹ پیپر "پبلک انویسٹ ان ایجوکیشن: این اپریزل آف ایس ڈی جی 4 ان پاکستان" کے مصنف جناب عاصم بشیر خان نے وائٹ پیپر کے نتائج اور سفارشات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ "دونوں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حقیقت کو سمجھتی ہیں کہ تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری کی موجودہ حالت مطلوبہ حد کہیں کم ہے۔ یہ سیکٹر کے زیادہ تر منصوبوں کے ساتھ ساتھ وژن 2025 دستاویز سے بھی ظاہر ہوتا ہے جس میں تعلیم کے لیے جی۔ڈی۔پی کا 4 فیصد مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تاہم، حقیقت میں پاکستان گزشتہ 20 سالوں سے تعلیم کے لیے جی۔ڈی۔پی کا 2.5 فیصد سے زیادہ حصہ مختص کرنے سے ناکام رہا ہے۔ کووڈ بحران کے باعث تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری میں مزید کمی آئی ہے۔ مالی سال 2020-21 میں تعلیم کے لیے جی۔ڈی۔پی کا صرف 1.5 فیصد مختص کیا گیا تھے۔"

پی۔سی۔ای کی نیشنل کوآرڈینیٹر محترمہ زہرہ ارشد نے تعلیم تک مساوی رسائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا "ہمارے پاس اب بھی 22.84 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں سے 12.16 ملین لڑکیاں ہیں۔ وبائی مرض کے بعد اس تعداد میں کم از کم 4.2 فیصد اضافے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے مزید متنبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے ایجنڈا 2030 کے اختتام تک صرف آٹھ سال باقی رہ گئے ہیں، اور یہ ڈر ہے کہ پاکستان تب تک اپنے تعلیمی اہداف پورے نہیں کر پائے گا۔"

لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی میں حایل رکاوٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے،پی۔وائی۔سی۔اے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اریبہ شاہد نے اراکین پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ احساس تعلیمی وظیفہ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے ڈیٹا پر نظرثانی کریں کیونکہ یہ ڈیٹا دس سال پرانا ہے اور وبائی مرض کے بعد ہزاروں اور گھرانے غربت کی لکیر سے نیچے آ چکے ہیں۔ "یہ ضروری ہے کہ تعلیمی وظیفہ پروگرام بھی اس نئی صورتحال کا جائزہ لے تاکہ تمام مستحق بچے اور بچییاں اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی کے اراکین پر بھی زور دیا کہ وہ خیبرپختونخوہ کی طرح صنفی طرز پرتعلیمی بجٹ کو تشکیل دیں تاکہ تعلیمی منصوبہ بندی اور اخراجات میں لڑکیوں کی معیاری تعلیم تک رسائی کو مؤثر ترجیح دی جا سکے۔

سول سوسائٹی کے اراکان نے پارلیمنٹیرینز سے اس سال کی پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس رپورٹ میں اسکول سے باہر بچوں کے باب کی عدم موجودگی کے معاملے کو بھی اٹھانے کو کہا۔ پاکستان دنیا میں اسکول سے باہر بچوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی کا حامل ہے۔ ایسے میں اسکول سے باہر بچوں کے باب کو رپورٹ سے خارج کرنے سے فیصلہ سازوں اور سول سوسائٹی دونوں ک پالیسی سازی کے لیے اہم اعداد و شمار سے محروم کردیا گیا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل ریسرچ، پیپس جناب محمد راشد ذکا نے لائن ڈپارٹمنٹس کو جوابدہ بنانے کے لیے پارلیمانی کمیٹیوں کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی۔ پنجاب بھر میں تعلیم کے نفاذ کو ارکان پارلیمنٹ کی نگرانی  کے ذریعے کئی گنا زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے۔

ایم۔پی۔اے شمیم آفتاب نے چھوٹے، چھوٹے ڈیجیٹل اور ہائبرڈ لرننگ اقدامات کو شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک کے تعلیمی نظام کو ہنگامی حالات سے موثر طور پر نمٹنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔

اپنے اختتامی کلمات میں ایم پی اے عائشہ نواز چوہدری نے کہا کہ "آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ قانون سازوں، محکمہ تعلیم اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تبادلہ خیال ہے تاکہ بہتر پالیسیاں ترتیب دی جا سکیں۔" انہوں نے پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں اسی طرح کی گول میزگفتگو منعقد کرنے میں بھی دلچسپی ظاہر کی تاکہ تعلیمی نظام کو درپیش چیلنجز کے بارے میں براہ راست ضلعی عہدیداروں اور کمیونٹی ممبران سے سیکھ سکیں۔
أحدث أقدم