تحریر افسر خان
جہاں جدید ٹیکنالوجی نے انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا ہے وہاں نوجوانوں کی اخلاقیات اور سیرت وکردار کو بھی بری طرح بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔موبائل فون صدی کا ایک اہم اور اختراعی ایجاد ہے۔اور یہ یقیناً اس جدید دور میں زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اس نےاس تیزرفتار تر قی کے دور میں انسانی رابطوں کو جس قدر سہل بنادیا ہے کچھ سال پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فاصلوں کو اس طرح سمیٹ کے رکھ دیا ہے کہ جیسے اپنے گھر میں ہی اپنے عزیزوں سے محو گفتگو ہوں۔ کاروباری امور ہوں یا عزیزوں،دوستوں سے روابط کی ضرورت ، اب کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے۔ موجودہ دور کا اگر دورِگزشتہ سے تقابلی جائزہ لیا جائے، تو ہم یہاں پر اللہ تعالی کی ان لاتعداد نعمتوں کے آگے خود کو شرمندہ محسوس کریں گے،جنہیں اللہ تعالی نے ہماری آسائش کے اسباب کے طور پر عطا کئے ہیں ، مگر ہم ان کی مثبت پہلووں کو نظر انداز کرکے منفی اورنقصان دہ خلاف ِ اخلاق پہلووں کو اپنائے ہوئے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ ہر چیز کے استعمال کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک مثبت اور دوسرامنفی۔ اب موبائل کو ہی لیجئے اگر ہم اس کے ذریعے سے غریانیت اور واہیات پھیلانے کے بجائے ، حدیث مبار ک کا ترجمہ یا قرآن شریف کی آیتوں کے ترجمے ایک دوسرے کو بھیجیں، یا کسی اچھی بات ، نصیحت یا کہاوت دوسروں تک پہنچائیں، اس کی میموری کارڈ میں گانے ، غیر اخلاقی موویز بھرنے کے بجائے ، تلاوت قرآن ، نعتین، قوالی، حمدو ثنا ڈال کر اس کو سنتے رہیں اور اس کو پھیلائیں ، یعنی اگر ہم یہ چیزیں کسی ایک کو دیتے ہیں،ہا ایس ایم ایس کرتے ہیں، تو یہ چیزیں ایک شخص سے دوسرے ، تیسرے ، یہاں تک ہزاروں لاکھوں افراد تک پہنچ جاتی ہیں، سوچیں اگر یہ غیر اخلاقی، اللہ تعالی کی نافرمانی جیسے مواد پر مبنی ہو تو بھیجنے والا کتنا نقصان میں رہے گا۔ اس اتنی دفعہ گناہ ملے گا جتنی دفعہ یہ چیز ایک سے دوسرے تک پھیلتی جائے گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ایک نیکی کا دس گنا بھی ثواب دیتا ہے، اور سوچیں ایک لاکھ نیکیوں کا کتنا ثواب ہوگا، اگر ایک اچھی بات ، سبق آموز کہاوت،کسی بزرگ کی نصیحت، حدیث مباک، حمدو نعت، قرآن کی ایک آیت کسی کوبھیجیں جب تک یہ پھیلتا رہے گا اس کا ثواب بھیجنے والے کو ملتا رہے گاخواہ وہ اس دنیا میں ہو یا نہ ہو۔
امریکہ کے ایک تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے انٹرنیٹ اور امریکن لائف پروجیکٹ کی جانب سےکی جانے والی حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 19 سال سے کم عمر کے 15 فیصد افراد اپنے سیل فون سے غیر آخلاقی اور ناشائستہ جنسی مواد کا تبادلہ کر تے ہیں۔ سروے سے ثابت ہوئی ہے کہ 12 سے 17 سال کی عمر کے 6 میں سے 1 نوجوان جنسی ترغییب پر مبنی ٹیکسٹ، لطیفے یا عریان تصاویراپنے موبائل فون پر وصول کئے۔
نوجوانوں کی ایک چھوٹی تعداد یعنی 4 فیصد نے اپنی ہی یا دوسروں کی قابل اعتراض تصاویربھیجیں۔سروے کے دوران 17 سال کی عمر کے 8 فیصد افراد نے نے کہا کہ انہوں نے اپنے سیل فون سے جنسی طور پر طیش آوراور بھڑکانے والی تصاویر دوسروں کو بھیج دیں اور 17 سال کی عمر کے 30 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ انھوں اس قسم کی تصاویر اپنے موبائل فونز پر وصول کیں۔ تحقیق کے مصنف آمنڈا لنہرٹ نے کہا کہ ان بچوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے جو دوسروں سے اس کے بارے میں سنا ہو یا پھر اپنے سکول کے دوستوں کے ساتھ ڈیوڑھی یا سکول کے صحن میں بیٹھ کر ایسے مواد کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوں یا اپنے دوستوں کے موبائل فونز پر اس قسم کے مواد دیکھے۔ بچوں نے بتایا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے وہ مانوس ہوچکے ہیں اور یہ انگی روزمرہ زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔
لڑکے اور لڑکیاں برابر مواقع کے سیکسٹر ہیں، دوران تحقیق دونوں کے اس قسم کے غیر اخلاقی ایس ایم ایسز اور ایم ایم ایسز کے وصول کرنے اور بھیجنے میں کوئی خاص فرق نہیں پایا گیا ۔ رپورٹ 800نوجوانوں سے ٹیلی فونک سروے، سوال ناموں اور انٹرویوز کی بنیاد پربنایا گیا تھا، جن میں 625 سیل فون استعمال کرنے والے تھے۔ رپورٹ کے بعدسیکسٹنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے ہیں ،لیکن لنہرٹ کو خدشہ ہے کہ وہ اس عمل سے زیادہ رد عمل ظاہر کریں گے۔ اس میں وہ فلپ الپرٹ کی مثال دے رہی ہیں ، جب الپرٹ 18 کا تھا تو انہیں کسی بات پر اپنی 16 سالہ گرل فرینڈ سے لڑائی ہوگئی، جس پر وہ طیش میں آکر اپنی گرل فرینڈ کی عریان تصویراپنے دوستوں اورگھروالوں کو بھیج ڈالی ، جس پر الپرٹ پرکے خلاف مقدمہ کیا گیاان پر پورنوگرافی کا الزام ثابت ہوگیا۔اب وہ ایک جنسی مجرم ٹھہرا ہواہے۔
ہر ملک کی حکومتیں اس ضمن میں قانون سازی کرتی ہیں تاہم سخت سزا نہ ہونے کی وجہ سے اس عمل کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔اس قسم کی عریان تصاویراور دوسرے خلاف اخلاق مواد کے تیار کرنے والوں کے خلاف سخت سزائیں بنائی جائیں اور ان پر بلاامتیاز عمل درآمد ہوجانا چاہئے مگر روز بروز بڑھتے ان اخلاق شکن عادات کو ختم کرنے کے لئے نوجوانوں کو بچپن میں بہتر تربیت دینا بھی ضروری ہے ، اس کے غیر اخلاقی اور نقصان دہ پہلوئو ں سے بچوں اور نوجوانوں کو آگاہ کردینا چاہئے۔سیکسٹنگ یا جنسی ہیجان آمیز مواد کے دوسروں تک پھیلانےکے بہت بھیانک نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ کئی واقعات ایسے بھی رونما ہوئے ہیں کہ لڑکیوں کی دھوکے یا نادانی سے فائدہ اُٹھا کر بنائی گئی تصاویر ایم ایم ایس کی صورت میں مختلف نیٹ ورکس پر پھلائی گئیں اوراپنے ہم رتبوں اور رشتے داروں کی جانب سے لعنت و ملامت کے خوف سے ان لڑکیوں نے خود کشیاں کر ڈالیں۔ خودکشی کے واقعات بہت ہوتے تاہم اس کے اسباب پیش منظر میں نہیں لائے جاتےہیں،وہ مرنے والے کے ساتھ ہی دفن کردیے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف اساتذہ کا کام ہے بلکہ والدین کو بھی اس اپنا اول ترین فرض سمجھنا چاہئے، اول توسکول جانے والے بچوں اور بچیوں کو موبائل نہ دیں، اگر دیں بھی تو وقتاً فوقتاً ان کے موبائل کی کی جانچ پڑتال کریں، ان کے کنٹیکٹس کو چیک کریں، ایس ایم ایس ، ایم ایم ایس اورموبائل میں موجود مواد جائزہ لیتے رہیں۔
امریکہ کے ایک تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے انٹرنیٹ اور امریکن لائف پروجیکٹ کی جانب سےکی جانے والی حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 19 سال سے کم عمر کے 15 فیصد افراد اپنے سیل فون سے غیر آخلاقی اور ناشائستہ جنسی مواد کا تبادلہ کر تے ہیں۔ سروے سے ثابت ہوئی ہے کہ 12 سے 17 سال کی عمر کے 6 میں سے 1 نوجوان جنسی ترغییب پر مبنی ٹیکسٹ، لطیفے یا عریان تصاویراپنے موبائل فون پر وصول کئے۔
Post a Comment
Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.