اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر،اے پی پی، جنگ نیوز) اقتصادی ترقی کے عمل کو تیز کرنے اور معاشی استحکام کے تسلسل کو یقینی بنانے کی حکمت عملی پر مبنی آئندہ مالی سال 2011-12ء کے وفاقی بجٹ کا مجوزہ حجم 2504 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال سے 12.3 فیصد زائد ہے جبکہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 1203 ارب روپے منتقل کئے جائیں گے، ایف بی آر کی طرف سے 1952 ارب روپے کی وصولی کے تخمینہ سمیت مجموعی وفاقی محاصل کا تخمینہ 27 کھرب 32 ارب روپے لگایا گیا ہے، 975 ارب روپے کے بجٹ خسارہ کے ساتھ خالص وفاقی محاصل کا تخمینہ 1529 ارب روپے ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ یکم جولائی 2009ء تک دیئے گئے تمام ایڈہاک ریلیف الاؤنسز کو 2008ء کے بنیادی تنخواہ کے اسکیل میں ضم کرنے اور نئے پے اسکیل متعارف کرانے کے علاوہ پنشن میں 15 سے 20 فیصد اضافہ اور گریڈ 1 تا 15 کے تمام سرکاری ملازمین کے موجودہ کنوینس الاؤنس میں 25 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ کسی بھی چیز پر کسٹم ڈیوٹی پر اضافہ نہیں کیا گیا، تمام اسپیشل ایکسائز ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں اور لگژری گاڑیوں، سگریٹ، اسلحہ، چھالیہ اور سینٹری ویئر/ ٹائلز کے سوا 392 اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے، سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی تین سال میں ختم کی جائے گی جبکہ مشروبات پر بھی آئندہ سال فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے گا، بینکوں سے نقد رقوم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.3 فیصد سے کم کر کے 0.2 فیصد کرنے کی تجویز ہے، ادویہ سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والی 22 ضروری خام اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی میں خاطرخواہ کمی کی جا رہی ہے، قابل ٹیکس آمدنی کی کم از کم حد 3 لاکھ سے بڑھا کر ساڑھے 3 لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، نئے مالی سال کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مالیت 730 ارب روپے ہوگی۔آئندہ مالی سال 2011-12ء کے بجٹ میں تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ اور یکم جولائی 2009 تک دیئے گئے تمام ایڈہاک ریلیف الاؤنسز کو 2008ء کے بنیادی پے اسکیل میں ضم اور نئے پے اسکیل متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ برس بنیادی تنخواہ کے 50 فیصد کے مساوی ایڈہاک ماہانہ الاؤنس کی منظوری دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیکل الاؤنس اور پنشن میں بھی اضافہ کیاگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں یکم جولائی 2002ء کو یا اس کے بعد ریٹائر ہونے والوں کی پنشن میں 15 فیصد جبکہ 30 جون 2002 کو یا اس سے پہلے ریٹائر ہونے والوں کی پنشن میں 20 فیصد اضافہ کی تجویز ہے۔ گریڈ ایک تا 15 کے تمام سرکاری ملازمین اور ان کے مساوی مسلح افواج کے ارکان کے موجودہ کنوینس الاؤنس میں 25 فیصد اضافہ کی تجویز ہے جبکہ گریڈ ایک تا 15 کے ملازمین کے مختلف الاؤنسز میں اضافہ کی تجویز ہے۔ گریڈ 20 تا 22 کے وفاقی حکومت کے ملازمین کو حاصل ٹرانسپورٹ سہولت کی کمپلسری مانیٹائزیشن کی تجویز ہے۔نئے بجٹ میں ایئرکنڈیشنر، مائیکرو ویو اوون، ٹوسٹر، ہیئر ڈرائرز وغیرہ کو سستا کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے نئے بجٹ میں ان اشیاء پر عائد 15 سے20 فیصد تک عائد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی ہے۔ واضح رہے کہ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے حکومت نے مختلف اشیاء پر 15 سے25 فیصد تک کی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی تھی۔ جن اشیاء پر ڈیوٹی25 فیصد تھی ان پر 20 اور 25 فیصد ریگولیٹری جب کہ جن پر ڈیوٹی35 فیصد تھی ان پر 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی تھی اب 397 میں سے صرف60 اشیاء پر ڈیوٹی باقی رکھی گئی ہے بقیہ پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے سے درآمدی صابن، شیمپو، مکھن، گھی، شہد، جوس، بسکٹ، ٹماٹو پیسٹ، شیونگ کٹ15 سے25 فیصد تک سستی ہو جائیں گی۔نئے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے دواؤں کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی میں 5 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔اور اس فیصلے سے دوائیں بنانے والوں کو فوری فائدہ ہوگا مگر وہ اس کا ریلیف عوام تک منتقل کرتے ہیں یا نہیں اس بارے میں حکومت نے کوئی وضاحت نہیں کی۔ ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ ایس آر او 476 کے تحت فارماسیوٹیکل کے 47 آئٹم پر کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیونے سی این جی بسوں ،ٹرک ، ڈمبر، ٹریلر، سیمی ٹریلر اور ٹریکٹرز پر بھی16 فیصد کی شرح سے سیلز ٹیکس عائد کر دیا ہے ، حکومت نے 2008 میں سی این جی بسوں، ٹرک اور ڈمپرزوغیرہ کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کیا تھا مگر اس مرتبہ 3 جون کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے مطابق ان مصنوعات پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے ۔ اب سی این جی بسوں کی سی بی یو(CBU ) اور سی ڈی کے(CDK ) کٹس پر بھی سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔سورج مکھی، سرسوں اور کپاس کے بیجوں ، پیٹرولیم آئل ، موٹر اسپرٹ ، ہائی اسپیڈ ڈیزل ، فرنس آئل ، نیچرل گیس اور ایل پی جی ، الیکٹریکل انرجی ، فاسفورس ایسڈ ، فارماسیوٹیکل پروڈکٹس، کھاد، چاندی ، سونا ، مانیٹری گولڈ ،ٹن پلیٹ ، کمپیوٹر ہارڈوےئر ۔ لیپ ٹاپ ، ڈالر اور دیگر اشیاء سمیت تمام اشیاء کی درآمد ی ویلیو پر عائد ایک فیصد کی شرح سے عائد سینٹرل ایکسائز ختم کردی گئی ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سول ایوی ایشن کے آلات ، مقامی اےئر لائنز کی جانب سے درآمد کردہ جہازوں کے پرزے ، آگ بجھانے والی گاڑیاں ، ہائی وے ڈمپر ٹرک ، سی این جی کے کمپریسر ، ڈسپنسر، اسٹوریج سلنڈر، سی این جی سے متعلق تمام آئٹمز ، زرعی مشینری ، پلانٹ پروٹیکشن مشینری ، تھریشنگ مشینری کی درآمد پر بھی سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ان مصنوعات کو حکومت نے سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دے رکھا تھا مگر نئے بجٹ میں یہ استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔ اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کی۔قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ کی مالی سال 2011-12 کی پیش کردہ بجٹ تقریر کے مطابق نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کا مجوزہ حجم 2504 ارب روپے ہے۔ جو رواں سال سے 12.3 فیصد زیادہ ہے۔ خالص وفاقی محاصل کا تخمینہ 1529 ارب روپے ہے۔ اس طرح بجٹ کا خسارہ 975 ارب روپے رہنے کا امکان ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو زیادہ محاصل کی منتقلی کے باعث ان سے 125 ارب روپے کامالیاتی سرپلس متوقع ہے۔ اس طرح مجموعی مالیاتی خسارہ 850 ارب روپے ہوگا۔ جو جی ڈی پی کا 4فیصد ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجموعی وفاقی محاصل (ٹیکس، نان ٹیکس) کا تخمینہ 2732 ارب روپے ہے۔ ایف بی آر کی طرف سے وصولی کا تخمینہ 1952 ارب روپے ہے جس کا جی ڈی پی میں تناسب 9.3 فیصد ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 1203 ارب روپے منتقل کئے جائیں گے۔ گریڈ 20 تا 22 کے وفاقی حکومت کے ملازمین کو حاصل ٹرانسپورٹ سہولت کی ”کمپلسری مانیٹائزیشن“ کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومتی اخراجات کو کم کرنے کے لیے حکومت ایک ایسا کمیشن تشکیل دے رہی ہے جو تمام اخراجات کا جائزہ لے گا اور ان میں اصلاحات کی سفارشات کرے گا۔ حکومت کی سطح تک مختلف شعبوں میں تنحواہوں میں پیدا شدہ بگاڑ کو دور کرنے کے لیے بھی دوسرا کمیشن تشکیل دیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں کمیشن آئندہ بجٹ سے پہلے اپنی سفارشات حکومت کو ارسال کر دیں گے۔ ٹیکس تجاویز پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہاکہ اب وہ ایک ایسے مسئلے کی طرف جانا چاہتے ہیں جو قومی بجٹ کے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا اشارہ اُس تاریخی ناکامی کی طرف ہے جس کی وجہ سے ہماری حکومتیں ملک کے بیشتر امراء اور صاحب حیثیت لوگوں پر ٹیکس لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اور ہمارے ملک کی جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح میں اضافہ نہ ہو سکا۔ اور اسی وجہ سے ہم خودانحصاری کی جانب نہ بڑھ سکے۔ اور ہمارے ملک کے عوام پر ایک جانب بیرونی قرضوں کا بوجھ پڑا اور دوسری جانب ہم ان کی بنیادی ضروریات تک پوری نہ کر سکے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہم اپنی خود مختاری کے لیے حقیقتاً فکرمند ہیں، اگر ہم واقعی اپنے عوام کے لیے ایک بہتر زندگی کا تصور رکھتے ہیں، تو ہمیں خود انحصاری کی طرف جانا ہو گا۔ ہمیں اپنے ملکی محصولات میں ہر صورت اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ ممکن نہیں کہ جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے بھی کم ہو اور ہم اپنے لوگوں کی امنگیں پوری کر سکیں۔ انہوں نے انکم ٹیکس کے حوالہ سے حقائق پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہماری آبادی 18 کروڑ ہے۔ صرف 28 لاکھ افراد انکم ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے بھی صرف 15 لاکھ افراد گوشوارے جمع کرواتے ہیں اور لازما ً ٹیکس دینے والوں کی تعداد اس سے بھی کم ہو گی۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=534029