چترال: سیلاب کی تباہی ، کھوکھلے حکومتی دعوے، موسم سرما سرپرآگیا

چترال (نمائندہ خاص ٹائمز آف چترال) سیلاب کی تباہی کو ایک ماہ سے زائد کو عرصہ گزر گیا۔ سیلاب نے چترال کے 70 فیصد حصے کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ نہ صرف حکومتی وزراء اور دیگر سیاستی شخصیات نے علاقے کا دور کیا اور صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، بلکہ ملک کے تمام بڑے چینلزنے تبالی کے ان مناظر کو دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا کی موجودگی میں چترال کے چپے چپے سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہوگیا ہے۔ میاں نواز شریف ، عمران خان اور پی پی کے رہنمائوں نے دورہ کیا۔ 



میاں صاحب نے چترال میں بحالی کے کاموں کے لئے 500 ملین روپے کا اعلان کیا تھا۔ تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر کےلئے میاں صاحب نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تعمیر کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو جن کے گھر دوبارہ سیلاب زدہ جگہوں پر تعمیر نہیں ہوسکتے ان کو متبادل جگہ دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا نہ ہو۔ میاں صاحبان کی چترال کے ساتھ بے رحمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ یہ تو لواری ٹنل کے بھی شدید مخلاف تھے۔ عوام حکومت سے پوچھتی ہے کہ یہ اعلان کردہ فنڈ اُن کو ملے گا کب۔۔۔ کب یہ لوگ اپنے گھروں کی تعمیر و مرمت کر سکیں گے۔ 

انفراسٹرکچر کی بحالی تو حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 50 سے زائد پل تباہ ہوئے تھے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ بجلی گھرو ں سمیت کئی جگہوں پر حکومتی سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتیں بھی تباہ ہوئیں ہیں۔ مگر ابھی تک نہ کسی بجلی گھر پر کام کا آغاز ہوا ہے اور نہ ہی کسی سکول یا ہسپتال کی عمارت پر۔

سیلاب کے بعد فرط جذبات میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے بھی 50 ملین روپے امداد کا اعلان کیا تھا، عوام پی پی سے پوچھتے ہیں کہ کہاں ہیں 50 ملین؟؟ جناب نے تو یہ بھی کہا تھا کہ پی پی کے چیرمین بلاول زارداری اور آصف زارداری بھی چترال کا دورہ کریں گے۔ مگر نہیں آئے ۔ 

چترال کی عوام خود دار ہے۔ بھوکے مرنے کو ترجیح دے گی ، بھیک نہیں مانگے گی، یہاں تک کہ اپنا حق بھی۔ مگرکیا کریں:

ضبط کہتا ہے خموشی سے بستر ہوجائے
درد کی ضد ہے کہ دنیا کو خبر ہوجائے

موسم سرما سرپر ہے ۔ بہت سوں کے لئے نہ سرچھپانے کی جگہ ہے اور بہت سوں کے لئے نہ بجلی ہے نہ پانی۔ عوام پوچھتی ہے کہ میاں صاحب یہ کیسی ہے تیری حکمرانی؟

مختصر یہ کہ میاں صاحب اور عمران خان آخر کب عوام سے کئے اپنے وعدے وفا کریں گے۔ اور چترال میں اہم ترین مسئلہ سڑکوں کے بعد بجلی کا ہے۔ ایندھن کا سارا دارومدار جنگلی لکڑی پر ہے ، بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے لکڑی کی طلب اور بھی بڑھ جاتی ہے جس کے باعث جنگلات کٹ جاتے ہیں ۔ جنگلات کے بے دریغ کٹائو کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل پید ا ہوتے ہیں ۔

Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

أحدث أقدم