MrJazsohanisharma

دلہ زاک میں مغل دور کا تاریحی گنبد حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے زمین بوس ہورہا ہے۔

دلہ زاک میں مغل دور کا تاریحی گنبد حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے زمین بوس ہورہا ہے۔

گنبد کے اوپر چھ سال سے درخت اگا ہوا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکاروں کو اس درخت کو ہٹانے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔




پشاور (گل حماد فاروقی) مغل دور کا بنا ہوا ہوا تاریحی گنبد جو دلہ زاک روڈ پر گنبد گاؤں میں واقع ہے وہ حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے اپنی اصلیت کھو رہی ہے۔ یہ گنبد اکبر بادشاہ کے دور میں شاہ قطب زین العابدین نے بنا یا تھا جو ایک بزرگ صوفی کا مزار تھا۔ یہ گنبد باریک اینٹوں سے بنا ہوا ہے جس کے ساتھ اوپر منزل کو چڑھنے کیلئے سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ 

چترال یونین آف پروفیشنل جرنلسٹ ز کے صدر ، پشاور یونیورسٹی کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے سابق چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر عبد الرشید، باٹنی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ اور باٹنی کے بی ایس کے طالب علم عبد الرب نے اس گنبد کا دورہ کیا جہاں اس بات کا انکشاف ہوا کہ گنبد کی حالت نہایت ناگفتہ بہہ ہے۔ گنبد کے اوپر ایک درخت بھی اگا ہوا ہے تقریباً پانچ سال کا ہے۔ ڈاکٹر عبد الرشید نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ یہ درخت اس تاریحی گنبد کی وجود کیلئے نہایت حطرناک ہے اور اس کی جڑیں اس گنبد کے بالائی حصے کو کسی بھی وقت گراسکتا ہے۔ 

باٹنی کے پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا کہ اس درخت کی جڑوں سے جو کیمیاوی مواد نکلتی ہے وہ اس گنبد کی عمارت کیلئے نہایت حطرناک ہے اور اسے بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جب محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسسٹنٹ ریسرچ آفیسر نواز الدین کا نمبر دیا جن سے فون پر بات ہوئی۔ اور اس گنبد کے حوالے سے معلومات حاصل کی گئی تاہم ماہرین کے دورے کے دوران نہ تو کوئی چوکیدار تھا نہ کوئی اور سٹاف۔

یہاں تک کہ اس تاریحی گنبد کے ساتھ کوئی بورڈ بھی نہیں لگا ہوا ہے جس پر آنے والے سیاحوں، طلباء اور تحقیق کاروں کیلئے معلومات درج ہو۔ 
مقامی لوگوں سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بھی شکایت کی کہ ہمارا گاؤں اس گنبد کی وجہ سے مشہور ہے مگر عملہ کے لوگ تنخواہیں تو لیتے ہیں مگر اپنی ڈیوٹی نہیں کرتی۔ نہ تو کوئی اس کے معائنہ کیلئے آتا ہے نہ اس درخت کو ابھی تک کسی نے اکاڑا۔ 

مقامی لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ اس گنبد میں جو مزار ہے اس کے چاروں طرف تھالے لگے ہوئے ہیں اور گندا نالی کی بدبو سے بھی اس عمارت کی سیر کرنے والے کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ یہ چونکہ وفاقی محکمہ آثار قدیمہ کے زیر اثر تھا اب اسے صوبائی حکومت کو حوالہ کیا گیا ہے ۔ مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس گنبد پر مامور تمام عملہ اور اس کے نام پر نکلی ہوئی فنڈ کے بابت تحقیقات کی جائے کہ عملہ اپنا فرائض کیوں انجام نہیں دیتے اور اس کی حفاظت کیلئے چاردیواری تعمیر کی جائے نیز اس پر بورڈ بھی نصب کیا جائے جس پر تمام معلومات درج ہو۔ 



Post a Comment

Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.

Previous Post Next Post