مڈگلشت کے سینکڑوں لوگوں نے 80سالہ ذرام خان کے اہل حانہ پر دھاوا بول دیا، بدھ کے روز سے راستے کو غیر قانونی طور پر بند کیا ہوا ہے، بال پنچ میں خواتین اور بچے گھروں میں یر غمال۔

مڈگلشت کے سینکڑوں لوگوں نے 80سالہ ذرام خان کے اہل حانہ پر  دھاوا بول دیا، بدھ کے روز سے راستے کو غیر قانونی طور پر بند کیا ہوا ہے، بال پنچ میں خواتین اور بچے گھروں میں یر غمال۔



بدھ کے روز سے مڈگلشٹ کے لوگوں نے غیر قانونی طور پر راستہ بند کیا ہوا ہے۔

چترال(گل حماد فاروقی) وادی مڈگلشٹ میں تقریبا ً پانچ سو لوگوں نے  بال پنچ میں زرام خان اور روزی خان کے گھر پر دعویٰ بول دیا۔ ذرام خان کے مطابق یہ لوگ مسلح تھے اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہمارے گھروں پر حملہ آؤر ہوئے۔ ان کے مطابق ان مسلح لوگوں نے نہ صرف چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے میرے گھر کے خواتین کو بھی زود وکوب  کیا اور اسی سالہ بوڑھے لوگوں کو بھی بری طرح مارا پیٹا۔ بعد میں ان لوگوں نے خواتین سمیت ان لوگوں کو اغواء کرکے  مڈگلشٹ لاکر مستانہ خان کے گھر میں بارہ گھنٹے تک حبس بے جاء میں رکھ کر یر غمال بنایا جو بعد میں ایس ایچ او دروش پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ پہنچ کر ہمیں وہاں سے بازیاب کروایا۔

ایس ایچ او تھانہ دروش کے مطابق مڈگلشٹ وادی میں دو گروپوں کے درمیان تنازعہ شدت احتیار کرگیا۔تفصیلات کے مطابق وادی مڈگلشٹ کے بال پنچ علاقے میں  ذرام خان ولد نیاز محمد، روزی خان، منور  خان وغیرہ پچھلے 80 سالوں سے اس جگہہ آباد ہیں۔ انہوں نے شہزادہ سردارالملک سابقہ ڈی جی ہیلتھ سے 294کنال زمین 80 لاکھ روپے کے عوض خریدا تھا جس کے ساتھ پوشیدین میں ایک چراگاہ بھی شامل ہے۔ مگر مڈگلشت والے  پوشیدین والی چراہ گاہ اور زمینات  پر غلط طور پر دعویٰ داری کرتے ہیں۔ زرام خان نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ان کے پاس باقاعدہ قانونی دستاویزات موجود ہیں جبکہ یہ اراضی پچھلے 80 سال سے ان کے قبضہ میں بھی ہے۔

زرام خان کے مطابق 9 جون کو  مڈگلشٹ سے تعلق رکھنے والے تقریباً پانچ سو مسلح افراد نے پوشیدین میں  ان کے گھر پر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حملہ کیا اور  بچے بوڑھے، خواتین سمیت سب کو زود و کوب کرکے زحمی کیا۔ ذرام خان نے مزید بتایا کہ سب لوگ مسلح تھے اور ہمارے اوپر  اندھا دھند فائرنگ بھی کھول دیا تاہم ہم نے  دیوار کے پیچھے خود کو بچالیا۔انہوں نے مجھے، میرے اسی سالہ بھائی  روزی خان اورمیری بیٹی کو  شدید زحمی کرنے کے بعد وہاں سے اٹھا کر اغواء کیا اور گھسیٹتے ہوئے ہمیں مڈگلشٹ لایا جو مستانہ خان کے گھر میں ہمیں بارہ گھنٹے تک حبس بے جاء میں رکھ کر یرغمال بنایا جو سراسر غیر قانونی اور زیادتی ہے اور درندگی کا شرم ناک مثال ہے۔ ان کے مطابق ہمارے قبیلے والے دے دروش پولیس کو اطلاع دی اور ایس ایچ او  تھانہ دروش پولیس کی بھاری نفری سمیت آکر ہمیں وہاں سے بازیاب کروایا۔ ذرام خان نے مزید کہا کہ یہ لوگ تعداد میں زیادہ تھے اور کراس FIR کرانے کیلئے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے بندوں کو بھی زحمی کیا ہو۔

ایس ایچ او تھانہ دروش کے مطابق اس کیس میں  تین FIR  درج ہوئے ہیں جن میں ایک کراس ورژن بھی ہے اور دونوں فریق سے بندے گرفتار بھی  کئے ہیں۔ فریق اول سے جعفر حسین، اطہر علی اور نذیر الرحمان کو گرفتار کئے ہیں جن پر  تعزیرات پاکستان کے تحت دفعہ  342,506,354,147,149 مد نمبر 6 کے تحت مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ جبکہ دوسری فریق سے  روزی خان اور ذرام خان  کو علت 184 میں زیر دفعہ 324,34 کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے۔ جبکہ تیسرا FIR  علت 185 برحلاف شیری ترکھان،نوید،سہیل، خطاب وغیرہ پر زیر دفعہ 341,354,504کے تحت درج کیا گیا ہے۔

 اس واقعے کے بعد بدھ کے روز سے مڈگلشٹ کے شر پسند لوگوں نے سرکاری سڑک بلاک کیا ہوا ہے اور بال پنچ میں  بچوں اور خواتین سمیت جو پندرہ لوگ اب بھی گھروں میں مقید ہیں ان کے مرد حضرات سمیت کھانے پینے کی سامان کو بھی وہاں جانے نہیں دیتے۔

ہمارے نمائندے نے حقایق جاننے اور اس معاملے کے جانچ پڑتال کیلئے جب مڈگلشٹ پہنچ گیا تاکہ دونوں فریق کا موقف لے سکے  تو وہاں موجود سینکڑوں لوگوں نے  نہ صرف بات کرنے سے انکار کای بلکہ ان کو روک دیا ان کو پریس کارڈ بھی دکھایا گیا مگر ان شر پسندوں نے ایک بھی نہیں سنی اور ان کو وہاں سے  روک کر صاف انکا رکیا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہاں پولیس کے دو سپاہی بھی موجود تھے جو اسی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی موجودگی میں یہ لوگ غنڈہ گردی کرتے ہوئے راستے کو ہر قسم ٹریفک کیلئے بند کیا ہوا ہے۔

ہمارے نمائندے نے  ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سمیرا شمروز خان  کو فون پر اس واقعے کی اطلاع دی کہ یہ لوگ نہ صرف بال پنچ کے لوگوں کو نہیں چھوڑتے بلکہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے میڈیا ٹیم کو بھی نہیں جانے دیتے جس پر ڈی پی او نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ضرور اس کا پوچھ گچ کرے گی۔ہمارے نمائندے نے کالاس پولیس چوکی آکر واقعے کی شکایت کرنا چاہی مگر وہاں ایک سپاہی ضیا ء الرحمان بغیر وردی کے موجود تھے اوروہ راستے کی بندش کے بارے میں کسی قسم کی معلومات نہیں دے سکتے تھے۔

ہمارے نمائندے نے تھانہ دروش آکر  ملزمان کی گرفتاری اور راستے کی بندش پر پولیس کی رد عمل کے بارے میں جاننا چاہا۔

ذرام خان نے مزید بتایا کہ میڈیا میں ایک غلط خبر چلا ہے کہ مڈگلشٹ والے آبپاشی کرنے کے  عرض سے آئے تھے جبکہ وہاں آبپاشی کا کوئی ایسا نہر ہی نہیں ہے جہاں سے یہ لوگ اپنے کھیتوں کو سیراب کرسکے۔ جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے یہ لوگ صرف اور صرف ہمارے گھروں اور زمینات پر قبضہ کرنے کیلئے مسلح ہوکر آئے تھے اور ہم پر حملہ کیا۔
واضح رہے کہ مڈگلشت میں ان شر پسندوں نے ابھی تک راستہ بند کیا ہوا ہے اور کسی بھی طرح قانون کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ذرام خان اور روزی خان نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کے پی سے اپیل کی ہے کہ مڈگلشٹ کے سینکڑوں  لوگوں نے ہمارے گھروں پر بغیر کسی وجہ کے حملہ کرکے خواتین سمیت بچوں کو زود و کوب کیا ان کے حلاف دہشت گردی کا بھی دفعہ لگایا جائے اور ان کے حلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی کرکے ان کو عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ چترال کی پرامن فضاء کو حراب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ایف آئی آر کے جانچ پڑتال سے پتہ چلا  کہ مڈگلشت والوں نے ایک ایسے فرد کا نام بھی FIR میں شامل کیا ہے جو وہ سرے سے اس ضلع میں اس دن موجود ہی نہیں تھا۔

Previous Post Next Post