عائشہ بانو اور شرمیلا فاروقی کا پاکستان کی تعلیمی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے قومی کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق
"وباء سے قبل بھی پاکستان کے تعلیمی اعدادوشمار کچھ بہت حوصلہ افزاء نہیں تھے لیکن کورونا وائرس کی وباء کے بعد ملک بھر میں بچوں کے لیے تعلیم تک رسائی اور بھی مشکل ہو گئی ہے۔" ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی زرار کھوڑو نے پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی۔وائے۔سی۔اے) کے زیراہتمام ایک ویبینار کے دوران کیا۔
ویبینار کے شرکاء میں ممبر سندھ اسمبلی، شرمیلا فاروقی اور ممبر خیبر پختونخواہ اسمبلی، عیشہ باننو شامل تھیں۔
ایم۔پی۔اے عائشہ بانو نے خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے تعلیمی بحران پر قابو پانے کے لیے، لیے جانے والے حالیہ اقدامات پر روشنی دالتے ہوئے بتایا "اس سال کے صوبائی بجٹ میں تعلیم اور صحت میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسکول سے باہر لڑکیوں کی تعداد ہمارے صوبے میں لڑکوں کی نسبت زیادہ ہے، لہذا تعلیمی ترقیاتی بجٹ کا 70 فیصدحصہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے۔"
عائشہ بانو نے آٹزم سے متاثرہ بچوں اور اسٹریٹچلڈرن کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔"ہم نے ایک قرارداد منظور کی ہے تاکہ یہیقینی بنایا جاسکے کہ صوبے کے ہر اسکول میں کسی ماہر نفسیاتیا مشیرکی بھرتی کی جا سکے۔تقریبا 1،000 کے قریب اساتذہ کو ٹرین بھی کیا جا چکا ہے تاکہ وہ سیکھنےسے معذور بچوں کی شناخت کر سکیں اور ایسے بچوں کو وہ خصوصی توجہ اور مدد فراہم کی جاسکے جسکے وہ مستحق ہیں۔"
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ، سندھ میں اسکول جانے والی عمر کے قریب 40 فیصد بچے اسکولوں میں نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں بہتری لانے لئے حکومت سندھ کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ، ایم۔پی۔اے شرمیلا فاروقی نے کہا، "سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی مدد سے ہم نے کمیونٹی اسکول تشکیل دئے ہیں۔یہ اسکول کمیونٹی کی شراکت کے ساتھ چلائے جاتے ہیں۔ اسی طرح، ہم بیٹیوںکا اسکول میںداخلا کرانے پر انکے خاندانوں کو 450 روپے مہانہ اور بیٹوں کے داخلے پر 350 روپےمہانہوظیفہ بھی دے رہے ہیں۔"
شرمیلا فاروقی نے پاکستان کی تعلیمی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے قومی ٹاسک فورس یا این۔سی۔او۔سی جیسے ادارے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ “ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت بھی اسی طرح کرنی ہو گی جس طرح ہم اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نمائندگی کے ساتھ ایک قومی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم تعلیمی بحران سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر اجتماعی اقدامات کرسکیں۔"
یہ تشویشناک صورتحال تعلیم کے ترقیاتی بجٹ میں مستقل اضافے کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ تعلیم سے متعلقہ اقدامات پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکے۔

Post a Comment
Thank you for your valuable comments and opinion. Please have your comment on this post below.